سید عتیق
افغانستان نے طالبان کے زیر سایہ پہلا ہفتہ مکمل کر لیا ہے ۔ اتوار 15 اگست 2021ء کی شام تک طالبان کے ملٹری کمانڈرز نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور اسی شام صدر اشرف غنی نے اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیئے تین رکنی کمیٹی بنائی
جس میں سابق صدر حامد کرزئی ، افغانستان کے قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے سربراہ و سابق وزیراعظم افغانستان گلبدین حکمت یار شامل تھے ۔ اشرف غنی اقتدار کی منتقلی کا اختیار و ذمہ داری ان تینوں کو سونپ کر متحدہ عرب امارات چلے گئے جہاں انہیں انسانی بنیادوں پر پناہ حاصل کر لی ۔
امریکہ کے لیئے یہ سب کچھ بلکل غیر متوقع تھا ۔ کیوں کہ امریکہ نے اربوں ڈالر لگا کر افغانستان کی حکومت کو تین لاکھ فوج تیار کر کے دی تھی مگر طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور قبضے کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی ۔

چھ اگست سے پندرہ اگست تک کے نو دنوں میں پنجشیر کے علاوہ پورے افغانستان کے تینتیس صوبائی دارلحکومتوں پر طالبان کا پرچم لہرا دیا گیا ۔ ہلمند ، ہرات ، قندھار ، اور بلخ سے مزاحمت ختم کر دی گئی ۔ اور دیگر صوبوں میں مذاکرات کے ذریعے طالبان نے قبصہ حاصل کیا ۔
دوحہ معاہدے کے مطابق امریکی اور نیٹو افواج کے مکمل انخلاء کی تاریخ تو گیارہ ستمبر تک تھی مگر اس اچانک افتاد سے گھبرا کر انہوں نے ہنگامی انخلاء شروع کر دیا ۔ طالبان کے قبضے کی صورت میں سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو تھا جو ماضی میں غیرملکی یا ملکی افواج کے لیئے کام کرتے تھے ۔
ان سب نے فوری طور پر افغانستان سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا ۔ان کی دیکھا دیکھی امریکہ اور یورپ کے سپنے دیکھنے والے نوجوانون نے بھی ایئرپورٹ کی طرف بھاگنا شروع کر دی اور یوں کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر انسانوں کا ایک ہجوم چڑھ دوڑا ۔ جسے روکنے کے لییے امریکی افواج کو فائرنگ کرنا پڑی اور کم از کم سات لوگ فائرنگ کی ذد میں آ کر مارے گئے ۔
یہ بھی پڑھیں
- کابل سے پسپائی اور کابل میں واپسی کے بیچ گزرے 20 سال،سابق طالب کی کہانی
- کابل کے ایک تاجرکا آنکھوں دیکھا حال،طالبان کی آمدکا سنا تو ہر طرف خوف پھیل گیا ،لیکن جو مناظر دیکھے حیران کن تھے
- طالبان 20 سال بعد دوبارہ کابل میں داخل ،مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان
- دشت لیلیٰ کا قتل عام اور جنرل عبدالرشید دوستم کی وردی
کچھ لوگ بھاگ کر رن وہ پر کھڑے امریکی ائیرفورس کے سی 17 طیارے پر چڑھ گئے ۔ کچھ طیارے کے باہر لپٹ گئے ۔ ایک جہاز کے اندر ساڑھے چھ سو لوگ گھسے تھے جنہیں طیارے نے قطر میں موجود امریکی فوجی بیس پر منتقل کیا۔ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکیوں نے افغانستان چھوڑا ۔
دوسری طرف قبضے کے فوری بعد طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا گیا ۔ اگلے روز ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں پریس کانفرنس میں یہ یقین دہانی کروائی کہ خواتین کو اسلامی شریعت کے مطابق تمام حقوق حاصل رہیں گے ۔
ان پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند نہیں کیئے جائیں گے ۔ طالبان کا کوئی بھی اہلکار کسی شہری کے گھر میں داخل نہیں ہو گا کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی ۔
اگلے روز کابل میں پاکستان روس ، چین اور ترکی نے اپنے سفارت خانے کھلے رکھنے کا اعلان کیا جب کہ امریکی ، انڈین اور یورپی ممالک مے سفارت خانے بند کر کے عملے کو نکالنا شروع کر دیا ۔ ایک جانب کابل میں تمام افغان گروہوں کے مابین مذاکرات کا عمل جاری تھا تو دوسری طرف افغانستان سے غیرملکیوں کے انخلاء کا آپریشن تیزی سے جاری رہا۔
طالبان کی طرف سے کابل میں مذاکرات کے لیئے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کے بیٹے انس حقانی اور بھائی حامد حقانی سب سے پہلے پہنچے ۔ اس کے بعد دوحہ میں موجود طالبان قیادت ملا عبدالغنی برادر کی معیت میں پہلے قندھار اور پھر کابل پہنچی ۔
اس دوران طالبان کے ساتھ روابط اور انہیں بین الافغان مذاکرات کے ذریعے اقتدار کی پرامن منتقلی کے لییے افغان قیادت نے پاکستان کی مدد حاصل کی ۔ اور یوں کابل پر قبضہ ہوتے ہی پاکستان کی اہمیت یک دم بڑھ گئی جب کہ انڈیا کا کردار ختم ہو کر رہ گیا۔ اس وقت پاکستان طالبان اور بیرونی دنیا کے مابین ایک پل کا کردار ادا کر رہا ہے ۔

افغان قیادت کے سامنے اقتدار کی منتقلی کے بعد اگلی حکومت کی قانونی حیثیت کا سوال بھی موجود ہے ۔ ادھر پنجشیر میں موجود اشرف غنی کے نائب صدر امر اللہ صالح نے خود کو اشرف غنی کے بعد صدر بنا لیا ہے ایسے میں معاملات بین الاقوامی قانون یا افغانستان کے آئین کے تحت آگے بڑھیں گے یا فیصلہ بزور طاقت ہو گا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔
چین اور پاکستان کے علاوہ روس اور ترکی بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں لیکن یہ اسی صورت ہو گا جب طالبان کی جانب سے ان طاقتوں کے ساتھ مستقبل میں اشتراک عمل کی کوئی صورت نکلتی یے ۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور امریکی محکمہ خارجہ سمیت یورپی یونین بھی یہ کہہ چکی ہے کہ ہم مستقبل میں طالبان کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں ۔ اگرچہ یورپی ہونین کی ترجمان نے آج یہ وضاحت بھی دی ہے کہ طالبان کے ساتھ چلنے کا مطلب یہ نہیں کہ طالبان حکومت کو بھی تسلیم کیا جائے ۔
طالبان نے کابل پر قبضے کے چار دن بعد 19 اگست 2021ء کو افغانستان کے ایک سو دویں یوم آزادی کے موقع پر افغانستان امارت اسلامی کے قیام کا اعلان کیا ۔ مگر اس امارت کے انتظامی ڈھانچے کے خد و خال تاحال سامنے نہیں آئے ۔ اگلا حکومتی سیٹ اپ کیسا ہو گا ؟ اس سوال کا جواب ملنے کے بعد ہی یہ طے ہو گا کہ افغانستان کا مستقبل پر امن ہو گا یا نہیں ۔
افغانستان سے انخلاء کرنے والے ممالک کے پاس اس وقت افغانستان پر اثر انداز ہونے کے لیئے پاکستان کے سوا اگر کوئی دوسرا راستہ ہے تو وہ قطر ۔ مگر قطر افغانستان کی زمینی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔
چین روس اور ترکی وغیرہ بھی صورت حال کو پاکستان کے ذریعے ہی قابو کر سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتے کے دوران جرمن ، برطانوی ، امریکی اور یورپی ممالک پاکستان سے رابطہ کر کے اپنے خدشات اور تحفظات کا ازالہ کروا رہے ہیں ۔

افغان منظر نامے میں پاکستان کا بڑھتا ہوا کردار اور مدبرانہ طرز عمل
اس سارے قضییے میں پاکستان کا کردار انتہائی مثبت اور تعمیری رہا ہے جہاں ایک طرف پاکستان نے افغانستان سے غیر ملکیوں کے انخلاء میں دیگر ممالک کو سہولت دی وہیں بین الافغان ڈائیلاگ کو آگے بڑھانے اورافغانستان کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیئے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں ۔
ایک ہفتے کے دوران اب تک کابل ایئرپورٹ پر بیس اموات رپورٹ ہوئیں جب کہ دیگر علاقوں سے کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی۔ اعلیٰ مذاکراتی کونسل کے رکن اور حزب اسلامی کے سربراہ سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔
گلبدین حکمت یار کی امامت میں طالبان راہنمائوں نے نماز ادا کرنے ہوئے تصویر جاری کی ۔ اتوار کو گلبدین حکمت یار نے ریڈیو پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کی اگلی حکومت تمام فریقین کے لیئے قابل قبول ہو گی ۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے تمام سرکردہ گروہوں اور پارٹیوں سے بات چیت جاری ہے اور اگلے کچھ ہی ہفتوں تک متفقہ افغان حکومت آ سکتی ہے ۔

چین طالبان کی حمایت کے لیئے میدان میں ہے ۔ ترکی نے بھی طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو قبول کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔ جس کے بعد طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ترکی کی طرف سے تعاون کی پیشکش کو سراہا گیا ۔
اگرچہ کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی پر ترکی اور طالبان کے درمیان مسائل پیدا ہو سکتے ہیں مگر ترکی نے گفتگو اور مذاکرات کا راستہ اپنا کر اس مسئلے کی حساسیت کو قدرے کم کر دیا ہے ۔
روس کی طالبان کے ساتھ پالیسی تضاد سے بھر پور ہے جہاں وہ ایک جانب طالبان کو سرکاری سطح پر دہشت گرد گروپ مانتا ہے وہیں ان کے ساتھ روابط بھی مسلسل بڑھا رہا ہے ۔روس کی کوشش اس وقت یہی ہے کہ اگر مستقبل میں طالبان کے ساتھ اسے چلنا پڑے تو راستہ موجود ہونا چاہیئے۔
طالبان کے ساتھ روابط کے لیئے دنیا اس وقت پاکستان کا چینل استعمال کر رہی ہے ۔ امریکہ خود بھی کابل ایئرپورٹ کی سکیورٹی کے معاملے میں طالبان سے رابطے میں ہے البتہ حکومت سازی اور مستقبل کے افغانستان میں کس کا کیا کردار ہو گا امریکا اور بھارت اس مسئلے سے بلکل الگ تھلگ ہیں ۔ ان کے تمام روابط انخلاء کے مشن سے ہیں ۔
مسلم ممالک کی اسلام پسند تنظیموں کی طالبان کی کامیابی پر مسرت
اس ایک ہفتے کے دوران دنیا بھر کے مختلف ممالک میں طالبان کی کامیابی پر جشن اور خوشیاں منانے کی اطلاعات بھی ہیں ۔ ملا عبدالغنی برادر کی قندھار آمد سے پہلے دوحہ میں حماس کے فلسطینی راہنما اسماعیل ہانیہ سے ملاقات ہوئی تھی ۔
افریقی ممالک سوڈان، مالی ، صومالیہ ، سمیت انڈونیشیا ، سے مراکش تک اسلام پسندوں نے طالبان کا خیر مقدم کیا ہے ۔ انڈیا نے البتہ ایسے لوگوں کے خلاف مقدمات قائم کیئے ہیں جو طالبان کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔
کابل میں اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیئے حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان قیادت سمیت تمام افغان دھڑوں اور پارٹیوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ افغانستان پر مستقبل کی حکومت کا ڈھانچہ ایرانی نظام کے قریب ہو گا ۔
کابل میں انتقال اقتدار کی کوششیں تیز
کیوں کہ جس طرح کا اقتدار طالبان کو اپنے نظام کی تنفیذ کے لیئے درکار ہے اس کے قریب قریب ایرانی ماڈل ہی ایسا دکھائی دیتا ہے جسے اپنایا جا سکے ۔ اگر افغان قیادت کسی نیئے طرز حکومت پر متفق ہو جاتے ہیں اور افغانستان خانہ جنگی و انتشار سے بچ گیا تو مستقبل ایک جدید افغانستان دیکھے گا جہاں شائد ہر ملک سرمایہ کاری میں دلچسپی لے مگر اس میں ابھی وقت لگے گا ۔
ایسے میں طالبان قیادت نے کرکٹ ڈپلومیسی کو بھی اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ افغان کرکٹ بورڈ وہاں کسی بین الاقوامی میچ کے ذریعے طالبان پر لگا دہشت گردی کا لیبل اتار دے۔