کمال احمد
صفدر حسین
ایبٹ آباد
دنیا بھر کے مسلم ممالک میں رمضان المبارک میں بالخصوص سحر و افطار کے حوالے سے کچھ خصوصی روایات پائی جاتی ہیں ۔اگرچہ جدید ٹیکنالوجی کی آمد سے بہت سی روایات دم توڑ چکی ہیں ،کبھی سحر و افطار کے وقت کہیں توپ داغی جاتی تھی اور کہیں نقارہ پیٹا جاتا تھا
جو ابتدائے و انتہائے سحر اور وقت افطار کا اعلان ہوتا تھا ۔لیکن جدید ٹیکنالوجی مثلا لائوڈسپیکر ،الارم اور پھر موبائل کی آمد نے سب کچھ بدل کررکھ دیا
لیکن دنیا بھر کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان کے بعض علاقوںمیں آج بھی صدیوںقدیم روایات پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے اور لوگ اس قدیم ثقافتی ورثے کو خاصی پسند کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
یہ بھی پڑھیں
کیلاش تہذیب کو زندہ رکھنے والے رحمت ولی کون ہیں؟
لیاری کی نئی شناخت کےلئے کوشاں مہرگھر کا منصوبہ کیا ہے ؟
ایسا ہی ایک سلسلہ آج بھی خیبر پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کے ایک گائوںبانڈی ڈھونڈاںمیں جاری وساری ہے ،جہاں ساٹھ سالہ سلامت اپنے آباء اجداد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہر روز سحری کے وقت پورے گائوں میںڈھول بجا کر گائوںوالوںکو سحری کیلئے جگانے کا فریضہ تقریبا گذشتہ پچاس سال سے بلا ناغہ سرانجام دیتے چلے آرہے ہیں .
سلامت جنہیںگائوں والے چاچا سلامت کہتے ہیں وہ بتاتے ہیں
میں گذشتہ تقریبا پچاس سال سے رمضان المبارک کے دوران سحری کے وقت ڈھول بجا کرلوگوں کو جگانے کا فریضہ سرانجام دے رہا ہوں ،میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت میرے والد یہ کام کر رہے تھے اس سے پہلے میرے دادا یہ کام کرتے تھے اور شاید میرے بچے اپنے باپ دادا کے اس پیشے کو جاری رکھیں ،
چونکہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں اس لئے میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا کریں گے؟ البتہ میری خواہش ہے کہ میرے باپ دادا کا یہ کام جاری رہے ۔
میں بہت کم عمر تھا جب میں نے یہ کام سنبھالا ،لیکن اس کے بعد رمضان میں گرمی ہو ،سردی یا برف مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی چھٹی کی ہو ،یا شاید ہی ایسا موقع کبھی آیا ہوکہ میںنے کبھی جان بوجھ کر ناغہ کیا ہو.
میں رات ایک بجے اٹھ کر گھر سے نکل جاتا ہوں اور تمام محلوں میں جا کر گلی گلی ڈھول پیٹتا ہوں
کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا
ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک پورے گاٶں کا چکر لگا لیتا ہوں یا بعض اوقات اگر وقت بچ جاۓ تو اردگرد بستیوں میں بھی چلا جاتا ہوں
وہ بتاتے ہیںاگرچہ وقت بہت بدل چکا ہے لیکن آج تک کسی نے میرے کام پر کبھی اعتراض نہیں کیا ۔ بلکہ اکثر لوگ اسے اپنے علاقے کی قدیم ثقافت سمجھتے ہوۓ پسند کرتے ہیں ۔
سلامت چاچا کے بقول ان کے کام کا کوئی طے شدہ معاوضہ نہیںلیکن عید کے موقع پر شخص اپنی استطاعت اور پسند کے مطابق تحفے تحاٸف بھی دیتا ہے
خواہش ہے بچے آبا کی روایت کو زندہ رکھیں ،سلامت چاچا
جس کا جو دل کرے وہ اپنی خوشی سے دیدیتا ہے اور ہمارا بھی اچھا گزارا ہو جاتا ہے
ان کے بقول جب تک دم ہے اپنے آبا کی روایت کو برقرار رکھوں گا اور بچوں کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں بہرحال میری خواہش تو یہی ہے کہ وہ اپنے باپ دادا کے اس کام کو جاری رکھیں