لوگ کہتے ہیں کہ کام کم ہو لیکن معیاری ہو. یہ باتیں ہمیں شعبہ صحافت میں روز سننے کو ملتی تھیں اور ملتے رہیں گی. لیکن یہ معیار کب بلند ہوگا اور کیسے ہوگا؟ اس بارے میں ابھی تک کسی بھی ادارے نے ہمیں بتانے کی کوشش ہی نہیں کی.شعبہ صحافت میں پچیس سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ہم ” لکیر کے فقیر “ہی رہے اور کہلائے بھی جاتے ہیں
وجہ اس کی یہی ہے کہ نہ تو ہمیں باد مخالف سے ٹکرانے کی ہمت ہے اور نہ ہی ” شوڑے” اور نہ یہ طاقت کے سامنے ہم میں بات کرنے کی جرات ہوتی ہیں.اسی وجہ سے ہم سب صحافی بشمول میرے کے سب ہی “آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے” لوگ بن کر رہ گئے ہیں.
پریوں کانشہ نسوار اور پختون ثقافت ۔۔۔۔مسرت اللہ جان
کلچر اور ہراسمنٹ ۔۔۔۔۔۔۔محمود فیاض
ہمارے کچھ صحافی برادری اس بات پر ناراض ہیں کہ ہم صحافیوں کو کیوں ٹارگٹ کرتے ہیں ان پر بات کیوں کرتے ہیں. ان کی خامیوں کی نشاندہی کیوں کرتے ہیں. یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں بھی دوسر ے دو “ج اور ج “کی طرح استثنی حاصل ہے کیونکہ ان کے نام میں بھی “ج”ہی آتا ہے حالانکہ ‘ ان دونوں ” ج اور ج” پر بات کرنے پر توہین کے مقدمات لگتے ہیں اور ہمارے برادری میں شامل ہونیوالوں ” ج”کا استحقاق مجروح ہوتا ہے
جس طرح ہمارے کچھ ممبران اسمبلی جنہیں اپنے محلے میں بھی کوئی نہیں پوچھتا لیکن سرکار کی اسمبلی میں آتے ہی انہیں لائن میں کھڑا رکھنا، ان سے بات کرنا ان کے استحقاق کو ٹھیس لگتا ہے اور پھر اس پر اجلاس کے اجلاس طلب کئے جاتے ہیں کمیٹیاں بن جاتی ہیں جس میں کچھ ہو نہ ہو ” ٹی اے ڈی اے ” بن جاتا ہے اور کمیٹیوں کے “کام پر مٹی پاؤ’والا حصہ ہو جاتا ہے.
خیر بات معیار سے شروع کی تھی سو معیار پر ہی آتے ہیں – کیا شعبہ صحافت میں آنیوالوں کا کوئی معیار ہے یہ وہ سوال ہے جو ہم صحافیوں کو خود اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے-یہ واحد پروفیشن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کا چوتھا اہم ستون ہے.
لیکن یہ ایسا ستون ہے جب اس کی ضرورت ہوتی ہے تو اس ستون سے وابستہ “صحافیوں کو گاڑیوں میں بھر بھر ‘ کہاں کہاں تک پہنچایاجاتا ہے.سیاستدانوں کے بیڈرومز،ڈائیننگ ہال سے لیکر ان مقامات پر جہاں پر کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا لیکن جب اس ریاست اس لنگڑے ستون کی ضرورت نہیں ہوتی تو پھر ” ریاست”دیگر تین ستونوں پر چل رہی ہوتی ہے اور کسی کو پروا بھی نہیں ہوتی. لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ بھی ہم صحافی ہی ہیں.
آج سے تقریبا ڈھائی دہائی قبل جب ہم شعبہ صحافت میں آئے تھے اس وقت صحافی کم تھے اخبارات بھی کم تھے لیکن جو اخبارات کے مالکان تھے وہ شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ تھے جنہیں صحافت کا بھی پتہ تھا اور وہ اس شعبے کی خیر خواہی بھی چاہتے تھے نیوز سٹال بھی زیادہ تھے
جبکہ اب تو ماشاء اخبارات کے مالکان بھی ‘ ٹھیکیدار” سے لیکر قبضہ مافیا تک کے لوگ شامل ہیں جنہوں نے شعبہ صحافت سے تعلق صرف اس لئے جوڑا ہے کہ انہیں اس کی آڑ میں اپنے غیر قانونی دھندوں کا سلسلہ جاری رہے.
اوریہی لوگ اس شعبہ صحافت میں ایسے لوگوں کو لیکر آئے ہیں جن کا کام صرف ‘ اپنے باس کی “ہاں میں ہاں ملانا ہے اور اس کی غیر قانونی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر پریس کلبوں میں ایسے لوگ ممبر ہیں جنہیں نہ تو خبر بنانی آتی ہیں، انگریزی سن کر ان کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوتا ہے، پوائنٹ سے خبر بنانا انہیں آتا ہی نہیں.ان کا کاروبار کچھ اور ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو صحافی کہلواتے ہیں.
کیا صحافیوں کا احتساب ضروری نہیں.یا ان سے ہر کوئی ڈرتا ہے. کیا ان کے اثاثے چیک کرنا ضروری نہیں. یہ وہ سوالات ہیں جو اس مملکت پاکستان کے تمام ریاستی اداروں کو خود سے اٹھانے کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ شعبہ اب مخصوص مافیا کیلئے پناہ گاہ بن چکا ہے اور اس کے بل بوتے پر وہ نہ صرف عوام کو بلکہ حکمرانوں کو بھی بلیک میل کرتے رہتے ہیں اوران سے فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں –
جبکہ جو جینوئن صحافی ہیں وہ غریب دال اور روٹی کے چکر میں سارا دن خوار ہوتے رہتے ہیں -کسی کو یقین نہیں آتا تو اس صوبے کے کسی بھی پریس کلب کے ممبران کی فہرستیں چیک کریں کہ کون کونسے لوگ ممبر بن چکے ہیں –
اب تو صحافت میں ایسے لوگ بھی آئے ہیں جن کے فارم ب ہیں اور شناختی کارڈ نہیں بنے لیکن وہ باقاعدہ صحافی بن چکے ہیں اگر کوئی فرد میٹرک کا امتحان دینا چاہے تو اس کیلئے لازم ہے کہ اس کی عمر سولہ سال ہوگی سولہ سال سے کم شخص میٹرک کا امتحان نہیں دے سکتا لیکن صحافت کیلئے ” بس فارم ب ” چند مخصوص لوگ کی سفارش ضروری ہے اور پھر کوئی بھی “شخص” ممبر بن سکتا ہے.
اب تو اس شعبے میں بھی ” پیر اشوٹرز”آنے لگے ہیں جنہیں ان کے والدین کی سپورٹ حاصل ہوتی ہیں – حالانکہ یہی صحافی جب سیاستدانوں، جرنیلوں پر بات کرتے ہیں تو آواز اٹھاتے ہیں کہ نسل درنسل چیزیں نہیں ہونی چاہئیے اور جم ہوریت ہونی چاہئیے لیکن جب مخصوص لوگوں پر اپنی باری آتی ہے تو پھر کہاں کی جم.. ہور.. یت..اور کون ہے پوچھنے والا..
مفادات کے اس چکر نے صحافیوں کو بھی وٹس اپ گروپوں تک محدود کرکے رکھ دیا ہے، بیان بازی چلتی ہے اور پھر چیزیں چھپا دی جاتی ہیں – لیکن آج تک کوئی بھی صحافی بشمول میرے کبھی کسی عدالت نہیں گیا کہ بھائی آکر ذرا چیک تو کریں کہ ” ہر ایرا غیرا” صحافی بن کر آرہا ہے کوئی معیار ہے بھی نہیں.
یا جو بندہ اخبار، رسالہ، میگزین چلا رہا ہے وہ کہیں پر رجسٹرڈ ہے بھی یا نہیں، بس کارڈ چاہئیے کسی بھی ادارے کے ساتھ ہو.پوچھنا تو کسی بھی نہیں. اور جو پوچھنے کی ہمت اور طاقت رکھتے ہیں انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ” اگلے انتخابات” میں ووٹ بھی لینے ہیں اس لئے وہ خاموش رہتے ہیں.
ویسے کیا صحافیوں کی سکروٹنی نہیں ہونی چاہئیے.کیا یہ احتساب سے بالاتر ہے اور آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں. نہیں بالکل بھی نہیں.. انکا احتساب سکروٹنی کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ چیک کیا جائے کہ کون سرکار کا ملازم ہے،
کون صحافت کے آڑ میں اپنا کاروبار کررہا ہے، کون دو نمبری ہے اور کون ٹھیکیدار. اور یہ عمل صحافیوں کو خود کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ گندے لوگوں کو اس شعبے سے نکالنا وقت کی ضرورت ہے.اور اگر یہ عمل نہ کیا گیا تو پھر صحافتی برادری یہ یاد رکھیں کہ آج جب لوگ سیاستدانوں، جرنیلوں اور دوسر ے لوگوں کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں اس سے بدتر حال صحافیوں کا ہوگا اور پھر کون ان کی آواز بھی نہیں سنے گا۔۔
25 سال سے قلم قافلے میں شامل مسرت اللہ جان نے پشاور یونیورسٹی کے آئی پی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ جرنلزم میں 2014 میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی ۔خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے واحد صحافی ہیں جنہوں نے ایشین کالج آف جرنلزم چنائی بھارت سے موبائل جرنلزم کی تربیت حاصل کی ،مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس صحافی کام کررہے ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھے ان کے کالمز تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں ،پاکستان فیڈریشن کونسل آف کالمسٹ کے صوبائی نائب صدر ہیں