آزادی ڈیسک
کراچی میںحال ہی میںمنظر عام پر آنے والے ایک کتابچے نے پاکستان کے سیکورٹی حکام کو تشویش میںمبتلا کردیا ہے .فارسی زبان سے اردومیںترجمہ شدہ مذکورہ کتابچہ میںپاکستان کے علاقے کرم سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ نوجوان کاتذکرہ ہے جو شام میںداعش کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میںمارا گیا ہے .ترکی کے ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کی حال ہی میںشائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 16 سالہ واجد علی ان درجنوںپاکستانیوںنوجوانوںمیںسے ایک ہے جو شام میںایران کے اتحادی بشارالاسد کی طرف سے داعش کےخلاف جنگ میںمارے جا چکے ہیں
پاکستان کے بیان پر فرانس احتجاج کناں
ترکی میںمزید 103 حاضر سروس فوجی افسران گرفتار
اب سعودی خواتین فوج کا حصہ بھی بن سکیںگی
رپورٹ کے مطابق حال ہی میںمنظر عام پر آنے والے مذکورہ کتابچہ جسے اے زینب ہم تیرے عباس ہیں کا عنوان دیا گیا ہے ،میں شام و عراق کے سرحدی علاقے البوکمال میں نومبر 2107 میںداعش کی ساتھ لڑائی میںمارے جانے والے دیگر شیعہ نوجوانوںکیساتھ واجد علی کا بھی تذکرہ ہے .جبکہ اس میںمارے جانے والے نوجوان واجد علی کے والد کے تاثرات بھی بیان کئے گئے جس میںوہ بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا کرم میںایک مدرسہ میںزیرتعلیم تھا جب انہیں داعش کی جانب سے شیعہ فرقے کے مقدس مقامات پر حملوںکی اطلاعات ملیں
تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر شام کے محاذپر چلے گئے اور حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے نام پر بننے والی ایک ملیشیا زینبیون کا حصہ بن گئے .واجد علی کے والد کے بیان
کے مطابق علی کو اس کی والدہ نے بھی ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے شام جانے سے نہیںروکا.
مذکورہ کتابچہ میں زینبیون بریگیڈ کے جھنڈے تلے شام میںلڑتے ہوئے مارے جانے والے دیگر جوانوں کے قصہ بھی اسی انداز میںبیان کیے گئے ہیںجو دوسروں کو ترغیب دلانے کا سبب بن سکتے ہیں
ٹی آر ٹی رپورٹکیمطابق شام میںمارے جانے والے زیادہ تر شیعہ نوجوانوںکا تعلق گلگت بلتستان اور کرم ایجنسی سے ہے ،جہاں اہل تشیع کی آبادی زیادہ ہے .2018 میںشام میں ایک لڑائی کے دوران مارے جانے والے آفتاب حسین الیاس حکیم اللہ کا تعلق بھی سی بریگیڈ سے تھا
ایران کا کردار

زینیبون بریگیڈ ایک مسلح ملیشیا ہے جو ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب کی مدد سے 2013 میںقائم ہوئی جس کا مقصد شیعہ فرقے کے مقدس مقامات کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا ،جس میںپاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوںکی بڑی تعداد نے شمولیت اختیار کی .جن میںزیادہ تر کی عمریں20 سے 30 سال کے درمیان تھی ،جو مذہبی جذبہ اور نوجوانی کے ولولے کے تحت اس کا حصہ بنے
رپورٹ میںایک شیعہ مذہبی رہنما(جنہوںنے اپنا نام ظاہر نہیںکیا ) کے حوالے سے بتایا گیا کہ جب داعش نے مقامات مقدسہ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تو پاکستان سے بڑی تعداد میں شیعہنوجوان شام میںلڑائی کے لئے جاتے رہے ہیں ،کیونکہ ان نوجوانوںکا خیال تھا کہ ان مقامات کی حفاظت کرنا ان مذہبی فریضہ ہے
قطع نظر اس حقیقت کے کہ وہ ایک تیسرے ملک کے معاملات میںدخیل ہورہے تھے
جبکہ اسی طرحکی ملیشیا فورس افغانستا ن کے شیعہ نوجوانوںکی بنائی گئی تھی جسے فاطمیون بریگیڈ کا نام دیا گیا

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سلامتی کے ضامن اداروںکے پاس شام میںلڑنے والے جوانوں کی حقیقی تعداد کی معلومات موجود نہیں،تاہم اندازہ ہے کہ ان کی تعداد 3 ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے
جبکہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے ایک ادارے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی کے سابق سربراہ احسان غنی کے بقول پاکستان سے زیادہ شیعہ نوجوان عراق اور شام میںمذہبی زیارات کے کیلئے گئے جہاںانہیںمختلف ترغیبات مثلا مقدس شہر وںجیسے قم میںتدفین ،بہتر مشاہرے کے ذریعے شامل ہونے پر آمادہ کیا گیا
مستقبل کے اندیشے
شام میںداعش کی شکست کے بعد وہاںبڑی تعداد میںجنگجو خاموشی کیساتھ اپنے ملک پاکستان میںواپس آرہے ہیں،اور یہ پہلا واقعہ نہیںجب پاکستان میںایسا ہوا ہو ،بلکہ اس سے قبل پاکستان سے بڑی تعداد میںسنی نوجوان افغانستان جنگ اور مقبوضہ کشمیر میںجاری مسلح تحریک میںشمولیت اختیار کرچکے ہیںلیکن یہاں معاملہ برعکس ہے کیوںکہ بدقسمتی سے پاکستانی اداروں کے پاس گذشتہ دو تین سالوںکے دوران شام سے واپس آنے والے جنگجوئوںکی مانیٹرنگ کا کوئی نظام موجود نہیں
ایک پاکستان اعلیٰسیکورٹی اہلکار کے بقول ماضی میںافغانستان اور کشمیر سے لوٹ کر آنے والے افراد بعد میںملکی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ بن کر ابھرے کیوںکہ ان میںسے زیادہ تر کی وفاداریاںالقاعدہ ،طالبان اور دیگر مسلح تنظیموں سے برقرار رہیںاور انہوںنے ان کی مدد سے پاکستان میں اپنے نیٹ ورک قائم کرلئے .
اب بھی یہی خطرہ ہے کہ ایسے نوجوان مقامی سطح پر نظریاتی تصادم میںزیادہ خطرناک انداز میںملوث ہوسکتے ہیں.
شامی تصادم کے ممکنہ اثرات
ٹی آرٹی ورلڈ کی رپورٹ میںمزید کہا گیا پاکستانی سیکورٹی اداروں کو اندیشہ ہے کہ ملک میںفرقہ ورانہ تصادم کو فروغمل سکتا ہے کیوں کہ حالیہ سالوںکے دوران ملک میںہونے والے مختلف واقعات کا نظریاتی مخالف تنظیموںکی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کرنا اس امر کا غماز ہے .

حالیہ گرفتاریاںو کریک ڈائون
گذشتہ دو ماہ کے عرصہ کے دوران سندھ کائونٹر ٹیررازم پولیس کی جانب سے زینبیون بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو گرفتارکیا ہے .
2 فروری کو سندھ کائونٹرٹیررازم پولیس اور وفاقی ایجنسی نے سید ذاکر رضا الیاس ندیم کو حراست میںلیا جو اس سے ایک ہفتہ قبل گرفتار ہونے زینیبون بریگیڈ کے عباس جعفری کا قریبی ساتھی بتایا جاتا ہے جبکہ دسمبر میں بھی دو افراد کو گرفتار کیا گیا
رپورٹ میںپاکستان اور مشرق وسطیٰکے امور پر نظر رکھنے والی صحافی صدف چوہدری کے حوالے سے کہا گیا کہ پہلے پاکستانی سیکورٹی ادارے شام کے تصادم میںپاکستانی نوجوانوں کی موجودگی کے حوالے سے بات کرنے سے گریزاںتھے
لیکن حالیہ عرصہ کے دوران ہونے والی گرفتاریاںاس بات کا اظہار ہیںکہ معاملات اتنے بھی سہل نہیںخطرات البتہ موجود ہیں ،اگرچہ پاکستان میں زینبیون بریگیڈ پر تاحال پابندی عائد نہیںکی گئی ،البتہ حکومت نے شام میںلڑائی کےلئے بھرتیوںسے تعلق رکھنے پر پارہ چنار کی دو شیعہ تنظیموں انصار الحسین اور خاتم الانبیاء پر 2016 اور 2020 میںپابندی عائد کردی تھی .
اس رپورٹ کا ماخذ ٹی آر ٹی ورلڈ، ایکسپریس ٹریبیون ہے
https://www.trtworld.com/magazine/pakistan-s-shia-mercenaries-return-from-syria-posing-a-security-threat-44655