مولانا تنویر احمد اعوان
قیام پاکستان کے بعد قادیانی لابی انتہائی متحرک ہوئی ،ان کی سرگرمیوں کو امیرشریعت رحمہ اللہ نے ملتان میں اپنے ایک خطاب میں یوں ارشاد فرمایا "انگریزوں کا خود ساختہ پوداپاکستان میں بیٹھ کر بھی برطانیہ کے لیے جاسوسی کررہا ہے۔
میری حکومت نے اگر اس طرف توجہ نہ دی تو مجھے ڈر ہے کہ اس ملک پر مرزائیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔”بلاشبہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید رحمہ اللہ کے بعد پیدا ہونے والی ناگفتہ بہ ملکی صورت حال میں مرزائیوں کو کھلے عام اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملا اور اپنے خود ساختہ الہامی عقیدہ "اکھنڈ بھارت "کے لیے جدوجہد شروع کردی
اور مرزا بشیرالدین محمود پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سرعام ہرزا سرائی کرنے لگا،جس کا مقابلہ کرنے کے لیے 9 مئی 1951کو برکت علی ہال لاہور میں منعقدہ کنونشن سے ملک گیر مرزائیت مخالف کا آغاز کردیا گیا ،امیرشریعت ناسازی طبیعت کے باوجود بھرپور جذبات کے ساتھ میدان عمل میں اترے
،مزید یہ کہ 17۔18 مئی 1952 ء کو جہانگیر پارک کراچی میں مرزائیوں کے سالانہ اجتماع میں وزیر خارجہ پاکستان سر ظفراللہ خان نے تقریر کرکے سرکاری عہدے کا فرقہ وارنہ استعمال کیا ،جس پر 2 جون 1952 ء کو کراچی میں ہی آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن طلب کیا گیا ،جس میں دو دن کی بحث کے بعدقرارداد منظور کی گئی کہ "مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،چودھری سرظفراللہ خان کووزارت خارجہ کے عہدہ سے ہٹایا جائےاور مرزائیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے۔
ان مطالبات کی تصدیق کے لیے 13 جولائی برکت علی ہال لاہور میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن منعقد ہوا جس میں ایک مجلس عمل تشکیل دی گئی ،جس نے 23 جنوری 1953 کو وزیر اعظم سے مل کر اپنے مطالبات پیش کئے اور ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی
22 فروری کی رات کو لاہور دہلی دروازے پر امیر شریعت نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ”آج کا یہ اجتماع مرزائیوں اور سر ظفراللہ خان کے خلاف مظاہرہ کرنے کیے منعقد ہوا ہے ۔جب کہ 26 جنوری کراچی کے اجلاس میں مجلس عمل نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ رضاکار مطالباتی جھنڈے اٹھائے عام راستوں سے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر جاکر مطالبات پیش کریں گے ،گرفتاری کی صورت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا
تاہم اسی رات آرام باغ کے جلسے کے بعد امیرشریعت سمیت مجلس عمل کے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا ،آپ کو سنٹرل جیل کراچی ،سکھر جیل اور پھرسنٹرل جیل لاہور میں منتقل کیا گیا ،اس دوران تحریک ناموس رسالت کے احوال اور حکومت کے جبر وتشدد کی وجہ سے آپ ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتے تھے
یہ بھی پڑھیں
- مذہب و ملت کے انتھک سپاہی سید عطااللہ شاہ بخاری کی حیات وخدمات (حصہ دوم)
- مذہب و ملت کے انتھک سپاہی سید عطااللہ شاہ بخاری کی حیات وخدمات (حصہ اول)
- کابل سے پسپائی اور کابل میں واپسی کے بیچ گزرے 20 سال،سابق طالب کی کہانی
- 13 جولائی اورتحریک آزادی کشمیر کو دوام بخشنے والی 22 شہیدوں کی اذان
لاہور جیل میں اسیران ناموس رسالت کی دلجوئی کے لیے ان کے پاس تشریف لے جاتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔اسی دوران آپ کو اپنے مؤقف سے پھسلانے کی کوشش کی گئی مگر آپ ثابت قدم رہے اور بالآخر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اےرحمن کے حکم پر 18 فروری 1954 کو امیر شریعت کو ان کے رفقاء کے ساتھ رہا کردیا گیا۔
12 ستمبر 1954 کو ملتان میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں آپ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا امیر مقرر کردیا گیا ،آپ نے یہ ذمہ داری سنبھالنے کے لیے مبلغین کی فکری و عملی تربیت کی ۔2جون 1955ء کوشیخ محمد اکبرڈسٹرکٹ جج کیمبل پور نے مرزائی عورت سے نکاح کے کیس کے بارے میں جاری اپنے فیصلے میں لکھا کہ "قادیانی مسلمانوں کا فرقہ نہیں ،اس لیے قادیانی عورت کا نکاح مسلمان مرد سے نہیں ہو سکتا ہے۔
اس فیصلہ پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ "ڈسٹرکٹ جج کے قلم نے مرزائیت کو فنا کردیا ہے۔”یہی وہ بنیادیں تھیں جن پر آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے قانون کی عمارت کھڑی ہوئی میں اور مرزائیت کا مکروہ چہرہ تاقیامت پوری دنیا کے سامنے واضح ہوگیا ۔
انگریز ی سامراج اور اس کے پروردہ قادیانیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے والے عظیم مجاہدو قائد،داعی قرآن ،جدوجہد آزادی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرکے حریت کا سبق پڑھانے والے امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ایک عبقری شخصیت تھے
آپ جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ،آپ کی جرات ،بہادری ،خودداری اور حریت سے بھرپور زندگی نسل نوکے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور ہے