یہ ہزارہ اور بالخصوص خطہ تناول کے ایک سردار کا قصہ ہے ،جس نے مشکل ترین حالات کے باجود طاقتور درانیوں ،غضبناک سکھ سرکار اور اپنے ہی قبیلے کے حریفوں کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے 26 سال تک مزاحمت و آزادی کا علم بلند کئے رکھا
جب اسے قبیلے کی سیادت ملی تو وہ اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا ،کیوں کہ اس کے والد درانی حکمرانوں کے ہاتھوں دھوکے سے قتل ہوچکے تھے ۔اس کی طاقت کے مراکز پر سکھوں کی مدد سے عم زاد قبیلے کا قبضہ ہوچکا تھا
اور دوسری جانب اس کی آخری جائے پناہ یعنی امب شہر کے گرد ہر گزرتے دن کے ساتھ سکھ فوجوں کا گھیرا تنگ ہورہا تھا
امب چند سو مربع گز کا مشتمل خشکی کا ٹکڑا تھا جو تندوتیزدریائے سندھ اور مہابن کے ہلالی پہاڑی سلسلہ کے درمیان گھرا ہوا تھا،
1830 کے بعد جب سکھوں نے ہزارہ پر اپنا قبضہ مضبوطی کیساتھ جما لیا تو پائندہ خان کو پکھل اور دیگر کئی علاقوں سے محروم ہونا پڑا ،جس کے نتیجے میں ان کی زرعی و تجارتی آمدنی 90 فیصد کم ہو کر صرف 10 ہزار روپے سالانہ رہ گئی ۔
لاہور دربار کی جانب سے پائندہ خان کو مختلف مواقع پر چار مرتبہ متبادل جاگیر دینے کی پیش کش ہوئی ،کیوں کہ ہزارہ کے سو سے زائد خوانین سکھ دربار سے وفاداری کے عوض جاگیریں حاصل کرچکے تھے
لیکن پائندہ خان تنولی نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جانب سے 1827،1832،1839 اور 1844 میں چار مختلف مواقع پر جاگیر کی پیش کش کو مسترد کردیا۔
اور اس کے بدلے انہوں نے اپنی فوج کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے سکھوں اور ہندوئوں کے تجارتی قافلوں اور کاروباری مراکز کو لوٹنے کو ترجیح دی ۔
ان کی چھاپہ مار کاروائیوں کا سلسلہ فتح جنگ اور ٹیکسلا کے میدانی علاقوں کا وسیع ہوگیا
یہی وجہ تھی کے ان کے پاس چھاپہ ماروں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا اور انہوں نے سکھ سرکار کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا
پائندہ خان تنولی نے تمام تر مشکلات کے باوجود 1810 سے 1820 کے درمیان خطہ تناول پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اگرچہ اس عرصہ کے دوران انہیں اپنے عم زاد پلال تنولی قبیلے کیساتھ مخاصمت کے علاوہ خوانین اگرور ،کشمیرکے طاقتور درانی حکمرانوں کی مخالفت کا بھی سامنا تھا ،
اسی دوران 1817 میں ان کے والد نواب خان تنولی بھی اعظم خان درانی کے ہاتھوں مارے جاچکے تھے،جنہیں صلح کے بہانے بلا کر دریائے سندھ میں ڈبو دیا گیا تھا۔یہی وجہ تھی پائندہ خان نے اپنی زندگی میں بہت کم کسی پر بھروسہ کیا ۔
یہ سب اس وقت ہورہا تھا جب پورے خطے پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لاہور دربار کا انتہائی تیزی کے ساتھ غلبہ وقوع پذیر ہورہا تھا ،
جہاں اس نے ایک طرف کشمیر سے افغان درانیوں کو نکال باہر کیا تھا تو دوسری جانب خطہ ہزارہ پر اس کا پنجہ مضبوط ہوچکا تھا
معروف مورخ ہری رام گپتا کے مطابق پائندہ خان تنولی ان تین طاقتور سرداروں میں شامل تھے جو سکھ سرکار کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکاری تھے ۔دیگر دو میں ارسلا خان مردان اور بونیر پنجتر کے فتح خان شامل تھے ۔
آخرالذکر دونوں سرداروں کا تعلق پٹھان یوسفزئی قبیلہ سے تھا جو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد تھے
لاہوردربار کے تاریخ دان سوہن لال سوری نے 1836 میں اپنی ایک تحریر میں لکھا کہ
مہاراجہ رنجیت سنگھ کو اپنے کمانڈر ہری سنگھ نلوہ پر شدید غصہ تھا جو پائندہ خان تنولی کی دوعشروں پر محیط بغاوت پر قابو پانے میں ناکام رہا
عمدہ التواریخ
پائندہ خان تنولی نے لاہور دربار کےخلاف اس وقت علم بغاوت بلند کیا جب طاقتور سکھ سلطنت شمالی مغربی سرحد کے زیادہ شہروں اور قلعوں پر قابض ہوچکی تھی جن میں پشاور،جمرور ،مالاکنڈ ،بنوں ،ڈیرہ اسماعلی خان ،نوشہرہ اور ہزارہ شامل ہیں ۔
احمد شاہ ابدالی کی ہندوستان مہم اور خطہ تناول میںنئے دور کا آغاز
10 رمضان المبارک ،سندھ کے دروازے پر اسلام کی دستک
جزیرہ نما بلقان کی مسلم آبادی اور درپیش چیلنجز (حصہ اول )
1824 میں ہری سنگھ نلوہ کے ہاتھوں سریکوٹ میں ہونے والی بغاوت پر قابو پانے کے بعد ہز کے زیادہ شہری اور تناول زیریں کے زیادہ ترپہاڑی علاقے سکھ سلطنت کے زیر اثرآچکے تھے اور مزید کسی کے سراٹھانے کا اندیشہ نہ رہا تھا ۔

ان علاقوں میں 1846تک حالات پرسکون رہے،تاوقتیکہ علاقے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سکھوں کی شکست کی خبریں پھیلیں
سردار پائندہ خان تنولی کی بغاوت کا عرصہ تقریبا دوعشروں پر محیط رہا ،جس میں ان کی قبائلی فوج کا بڑا حصہ ختم ہوگیا اور انہیں اپنے بہت سے علاقوں سے محروم ہونا پڑا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسرکیپٹن ایڈورڈ بیری کونولی نے1839 میں سردارپائندہ خان تنولی سے ملاقات کی ۔جس میں انہیں معلوم ہوا کہ پائندہ خان تنولی کے پاس اس وقت 1 ہزار تنخواہ دار سپاہی اور 4 ہزار قبائلی رضا کار موجود تھے ۔
حالانکہ 1836 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر لیفٹیننٹ لیچر کی ملاقات کے وقت پائندہ خان کے پاس 2 ہزار پیادے اور 5 سو گھڑسوارتھے اس کے علاوہ ان کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے کے قریب تھی
جو کہ انہیں مسلسل بغاوت اور معرکہ آراٸیوں کے نتیجے میں ملنے والے نقصانات کا اظہار ہے
Source:Journal of the Asiatic Society of Bengal 1840
تاریخ دان ہری رام گپتا کی لکھی ایک تحریر کے مطابق فروری 1844 میں پائندہ خان نے 10 ہزار کے قبائلی لشکر کے ساتھ اٹک قلعہ پر حملے کیلئے دریائے سندھ کو عبور کیا ،لیکن یہ کوشش ناکام رہی ،جبکہ دریا کو عبور کرتے ہوئے پائندہ خان کے لشکر کے سو کے قریب سپاہی دریا میں ڈوب گئے
برطانوی خفیہ رپورٹس کے مطابق اس مہم میں پائندہ خان کو کاغان کے سیدوں ،گندھارا کے شیرمحمد خان ،خانپور کے راجہ گوہرعلی خان اور پکھلی کے حبیب اللہ خان سواتی کی درپردہ حمایت حاصل تھی
ستمبر 1844 میں ہزارہ میں سکھ فوج کے کمانڈنگ آفیسر جنرل ڈھوکل سنگھ نے پائندہ خان کے زخموں کا علاج کرنےوالے حکیم کے ذریعے انہیں زہر دیکر ابدی نیند سلا دیا
اس پر راجہ ہیرا سنگھ ڈوگرا نے خوش ہو کر ڈھوکل سنگھ کو پانچ سو روپے بطور انعام بھیجے

پائندہ خان تنولی اور ہری سنگھ نلوہ کے درمیان تعلقات کا اتار چڑھائو
مختلف ادوار میں نواب پائندہ خان تنولی اور سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ کے درمیان تعلقات اتارچڑھائو کا شکار رہے کبھی تو وہ کسی معاملے پر کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑے نظر آئے اور کبھی ایک دوسرے پر تلواریں سونتے دکھائی دیئے گئے
ان دونوں روایتی حریفوں کے مابین پہلا رابطہ 1820 میں ہوا ،جب ہندوال اور پلال قبیلوں کے درمیان مخاصمت سے آگاہ ہری سنگھ نے سربلندخان تنولی کےخلاف اتحاد کیلئے پائندہ خان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
پائندہ خان نے یہ پیشکش قبول کرلی لیکن امن کا دورجلد ہی اس وقت ختم ہوگیا جب پائندہ خان دربند میں واقع سکھ چھائونی پر بدترین حملہ کرکے سب کچھ تہس نہس کردیا
1827 میں ہری سنگھ نلوہ نے ڈوگہ قلعہ میں پائندہ خان کے پاس ایک امن وفد بھیجا جس کا مقصد سید احمد بریلوی کے خلاف اتحاد قائم کرنا تھا ،لیکن پائندہ خان نے یہ پیشکش ٹھکرا دی
اور اپنا ایک وفد ہری سنگھ کے پاس بھیج اسے اپنے سید احمد بریلوی کے حلیف ہونے کا اعلان کیا،لیکن ایک سال بھی نہ گزرا ہوگا جب پائندہ خان کو ہری سنگھ سے سید احمد اور ان کے ہندوستانی مجاہدین کےخلاف مدد مانگنے پر مجبور ہونا پڑا ۔جنہوں نے ان کے دربند اور امب کے مراکز پر قبضہ جمالیا تھا
اس کے جواب میں ہری سنگھ نلوہ نے پائندہ خان کی مدد کیلئے دو پلاٹون فوج بھیجی جنہوں نے ہندوستانی مجاہدین کو امب دربند سے نکالنے کے عوض پائندہ خان کے بیٹے جہانداد خان کو بطور سیاسی ضمانت مانگ لیا
جس کا مقصد صرف اور صرف پائندہ خان کو اس کے قول پر پابند رکھنا تھا ۔لیکن امب دربند کے واگزار ہوتے ہی پائندہ خان اور ہری سنگھ کا یہ اتحاد بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بالاکوٹ میں سکھوں اور سید احمد بریلوی کے درمیان ہونے والی جنگ میں پائندہ خان تنولی غیرجانبدار رہے
کم عمر جہانداد خان اگلے کئی سال تک بطور سیاسی ضمانت ہری سنگھ نلوہ کے پاس موجود رہے تاوقتیکہ کہ ان کے والد پائندہ خان کو انہیں واپس چھڑانے کےلئے ایک بار پر سکھ قلعے پر چڑھائی کرنا پڑی
1832 میں مہتاب سنگھ کی لکھی کتاب تواریخ ہزارہ کے مطابق پائندہ خان نے قادرآباد کرپلیاں میں واقع ہری سنگھ کے قلعے کا بارہ روز تک محاصرہ کئے رکھا۔
پائندہ خان کے لشکرکے توپخانے کی گولہ باری سے تنگ آکر ہری سنگھ نلوہ نے پائندہ خان کے بیٹے جہاندادخان کو قلعے کی دیوار پر کھڑا کردیا
تاہم مہتاب سنگھ کے مطابق پائندہ خان نے سپاہیوں کو اپنے بیٹے کی جان کی پرواہ کئے بغیر گولہ باری جاری رکھنے کا حکم دیا ،
اس کے علاوہ ہری رام گپتا نے 1836 میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہری سنگھ نلوہ کو دربند میں واقع آم کے باغات سے اپنے لئے آم بھیجنے کا حکم دیا .
ہسٹری آف سکھ جلد چہارم از ہری رام گپتا
1836 میں اگرور سے واپس آنے والے ہری سنگھ نلوہ سے پائندہ خان کے ایک وفد نے ملاقات کی اور اسے
دریائے سندھ پار آنے کی دعوت دی اور تاثر یہ دیا کہ وہ سکھ حکومت کی بالادستی قبول کرنے کو تیار ہیں
لیکن جب ہری سنگھ اور اس کے سپاہی دریا کے پار پہنچے تو ان پر پائندہ خان کے سپاہیوں نے شدید حملہ کردیا جس میں ہری سنگھ بمشکل اپنی جان بچا کر فرار ہوا
۔یہ دونوں حریفوں کی آخری ملاقات تھی
کیوں کہ اگلے سال یعنی 1837 میں ہری سنگھ نلوہ جمرود کی لڑائی میں مارا گیا
پائندہ خان تنولی کا تاریخ میں تذکرہ
سید احمد بریلوی کا خط بنام پائندہ خان تنولی 23 جولائی 1827
میں جب سے اس علاقے میں آیا ہوں ،میں نے آپ کے عزم و حوصلے اور مضبوط ایمان کے قصے سنے ہیں ،بالخصوص سید حسن شاہ کے آپ کے بارے میں خیالات حوصلہ افزا ہیں ۔اس وقت ہمیں دو مہمات درپیش ہیں ۔پشاور اورسکھوں کے خلاف جہاد۔
اس حوالے سے میں آپ کی رائے جاننا چاہوں گا اور اس مقصد کیلئے میں اپنے ساتھیوں ملاسید اخونزادہ اور خان علی شان سید مقیم کوآپ کی جانب روانہ کررہا ہوں ۔
برائے مہربانی وقت کی نزاکت کے پیش نظر آپ ان کے ساتھ جلد از جلد مشاورت کرلیں
سیرت سید احمد شہید از مولانا سید عبدالحسن علی حسنی ندوی
سوہن لال سوری کی یاداشتیں 1831
لوگ بتاتے ہیں کہ شہزادہ شیرسنگھ نے خلیفہ سید احمد بریلوی کے خلاف فتح پائی ہے ۔کیپٹن وڈے صاحب کے مطابق خلیفہ مشکلات کھڑی کرنیوالے اور معاملات میں دخل دینے والے تھے ،اچھا ہوا یہ ہوگا
اسی طرح باغی پائندہ خان کو بھی سزا ملنی چاہیے اور مجھے یقین ہے کہ اگر مہاراجہ نے اس معاملے پر بھی اسی طرح دلچپسی لی تو کو پائندہ خان بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا
عمدۃ التواریخ ،دفترثالث از سوہن لال سوری
سوہن لال سوری کی یاداشتیں جنوری 1836
یہ خبریں ملی ہیں کہ ہری سنگھ نلوہ پہاڑی علاقے میں داخل ہوچکے ہیں لیکن پائندہ خان دریا کے پار فرار ہوگیاہے ،جہاں اس نے مزید دوقلعے تعمیر کرلئے ہیں
تاہم 8 ہزار گھڑسواروں اور سپاہیوں کے باوجود پائندہ خان کے معاملے میں طوالت اور اس پر قابونہ پائے جانے پر مہاراجہ بھی برانگیختہ ہیں
عمدۃ التواریخ ،دفترثالث،جزو اول از سوہن لال سوری
الیگذنڈر برنس کی خفیہ رپورٹ 1836
شمالی خطہ زیادہ تر رنجیت سنگھ کے زیر نگیں آچکا ہے ماسوائے ،سندھ کے مغربی علاقے کے جہاں منگول النسل پائندہ خان تنولی قابض و متصرف ہے ۔تاہم مشرق کی جانب کا اس کا علاقہ اس سے چھن چکا ہے اور جس کے نتیجے میں وہ لاکھوں روپے کی آمدن سے محروم ہوچکا ہے ۔تاہم دربند سے دس کلو میٹر شمال میں چھتربائیاں کے جزیزہ پر اس کا ایک قلعہ موجود ہے جبکہ 240 مربع میل کا علاقہ بھی اس کے زیرنگیں ہے
جہاں سے سکھ حکومت کو کوئی خراج نہیں موصول ہوپاتا ۔جبکہ مشرقی کنارے پر بھی انہیں قبضہ برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے
کیوں کہ دریا پار سے پائندہ خان اکثر حملہ آور ہو کر ان کے لوگوں کو قیدی بنالیا ہے جن کی رہائی کیلئے حاصل ہونے والی رقم کو وہ اپنی فوج اور مضبوطی اور لوگوں پر خرچ کرتا ہے
اس کے پاس 5 سو گھڑسواراور 2 ہزار کے قریب پیدل سپاہی ہیں ،جن میں زیادہ تر وہ ہندوستانی بھی شامل ہیں جو سید احمد کے ساتھ آئے تھے ،جو 1831 میں سکھوں کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے
چارلس ہوگل کی یادداشتیں 1836
ہفتہ دسمبر 19 ہم رنجیت سنگھ کی سلطنت کی آخری سرحد کے قریب تھے ،یہاں سے پانچ کوس کے فاصلے پرواقع اروب نامی ایک قلعہ پائندہ خان تنولی کے علاقے کی داخلی ہے
جس کے پاس دو سے تین سو چھاپہ ماروں کا دستہ ہے جو کسی بھی جگہ پہنچنے اور لوٹ مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ رنجیت سنگھ کبھی اس علاقے پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ پایا
حتی کہ چند ماہ قبل ایک وقت میں مجھے مطلع کیا گیا کہ میں کسی ایسے گروہ کے ہتھے چڑھ سکتا ہوں ۔لیکن یہ لوگ خون خرابے کی حد تک بہت کم جاتے ہیں
اتنی تاخیر سے اس علاقے میں داخل ہونے پرخود کو تسلی دی ،حالانکہ مجھے علی الصبح نکلنا چاہیے تھا،لیکن اس سے پہلے پائندہ خان کو میرے راستے کی اطلاع مل چکی تھی
اسفار کشمیر و پنجاب از بیرن چارلس ہیگل
سوہن لال سوری کی یادداشتیں 1837
ملک ہزارہ میں پائندہ خان کی جانب سے گڑبڑ پھیلانے اور چانڈو کے قلعے کو فتح کرنے کی خبریں موصول ہوئیں ،جس سے ملک ہزارہ میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوا اور پورا علاقہ خوف و دہشت کا شکار ہوا ۔
اس پر مہاراجہ نے سردار تیج سنگھ کو فوج و توپخانہ کے ہمراہ اس علاقہ میں جانے اور اس باغی کا سر کچلنے کا حکم دیا ،سردار تیج سنگھ کو اس مقصد کیلئے 6 ہزار روپے ،سردار امرسنگھ مان کو 2 ہزار اور الہٰی بخش کو 1 ہزار روپے دیکر فوجوں کو دریائے جہلم پار کرنے کا حکم دیا
عمدۃ التواریخ دفترثالث ،حصہ دوم از سوہن لال سوری
منشی شاہ مات علی کی یادداشتیں 1839
سرکار کیلئے درد سر بننے والوں میں خانیزمان خان گندھاریا کے کے علاوہ تنولیوں کا سردار پائندہ خان بھی شامل ہے ۔یہ لوگ بہت بہادر لیکن فتنہ پرور ہیں
مختلف مواقع پرانہوں نے حسن ابدال کے میدانی علاقوں پر چھاپے مارے اور لوٹ مارکی ۔جو بچ گیا اسے تباہ و برباد کردیا ۔
ان کا راستہ روکنے کا واحد ذریعے اس علاقے میں فوج کی تعیناتی ہے ،بصورت دیگر وہ دن و رات کسی وقت بھی قافلوں اور شہروں کو لوٹ سکتے ہیں
انہیں سکھوں سے سخت نفرت ہے اور ان کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے ،مرحوم سردار ہری سنگھ ہر وقت ان کیساتھ برسرپیکار رہا
کیپٹن ایڈورڈ بیری کونولی کی یادداشتیں 1839
جب نواب خان تنولی کو بھاری پتھر سے باندھ کر دریا میں پھینک دیا گیا تو اس کا بیٹا پائندہ خان ایک تندخو سرکش جنگجو کی صورت میں ابھر کرسامنے آیا جس نے اپنے اردگرد موجود ہر ایک کے ساتھ جنگ کی ۔
اسے اس کے گھر سے بے دخل کرنے دریائے سندھ کے مشرق کی جانب دھکیل دیا گیا ۔لیکن وہ افغانوں ،سکھوں اور پلال قبیلے کے ساتھ مسلسل نبردآزما رہا ۔
پلال قبیلہ سکھ بالادستی کو جزوی طور پر قبول کرچکا ہے اور ان کا سردار سربلند خان اس وقت لاہور میں موجود ہے
لیکن پائندہ خان نے دریا کے داہنے کنارے پر پلال قبیلے کے شہر امب پر قبضہ کرلیا ہے ،
جہاں سےاگلے 26 سال تک اس نے سکھوں اور ان کے مقامی حامیوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا

پائندہ خان نے فخریہ انداز میں ذکر کیا کہ انہوں نے چار مختلف مواقع پر غازیوں کے لشکر تیار کئے ،اس کے اولین دستے میں سے اب اس کے ساتھ صرف تین ساتھی موجود ہیں ،جن کے جسم زخموں کے نشانات سے بھرپور ہیں
وہ اردگرد علاقوں سے دولتمند ہندوئوں کا اغواء کرتے ہیں اور ان کے بدلے تاوان وصول کرتے
ان مغویوں میں سے بعض سے جبری مشقت لی جاتی ہے اور بعض کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے ،اور اگر کوئی انکار کرے تو پتھر سے باندھ کر اسے دریا میں پھینک دیا جاتا ہے
اسے کوئی قول و قرار پابند نہیں کرسکتا ،وہ کسی گائوں سے ایک دن تاوان وصول کرتا ہے اورپھر اگلے دن اسے لوٹ لیتا ہے ۔
حتی کے اس کے اپنے حقیقی بھائی بھی اس کی دستبرد سے محفوظ نہیں ،جن میں سے ایک کو اس نے ہر چیز سے محروم کردیا ہے
اس شہر کی دوسری جانب دریا کے کنارے پر سکھوں کی متعدد حفاظتی چوکیاں ہے ،جہاں سے پائندہ خان کے آدمی اکثر انہیں منہ چڑاتے رہتے ہیں اور ان پر آوازے کستے ہیں لیکن سکھ فوجیوں کا اپنی چوکیوں سے باہر نکلنے کی جرات نہیں ہوتی
حقیقت میں دیکھا جائے توسکھوں کی وہاں موجودگی صرف اسی کی برداشت کا نتیجہ ہے ،کیونکہ یہ پائندہ خان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی ہیں
جو اپنی محفوظ راہداری کیلئے اسے باقاعدہ بھتہ دیتے ہیں ۔
جب کبھی اس کے دستے کسی سکھ قلعے کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہاں موجود سکھ فوجی دیواروں سے انہیں باقاعدہ سلام کرتے ہیں
چند سال قبل سکھوں نے اس کی ایک جاگیر پرقبضہ کرلیا ،لیکن اس کی شہہ پر پورا علاقہ سکھوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا
صورتحال کو دیکھتے ہوئے رنجیت سنگھ کو وعدہ کرنا پڑا کہ وہ اس کی جاگیر کی قیمت اسے ادا کردیگا ۔لیکن پائندہ خان نے اس کا جواب سکھوں کے پورے ایک گائوں کو زمین بوس کرکے دیا

رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پائندہ خان مزید فعال ہوگیاہے اور اس کا دائرہ کار جہلم تک وسیع ہوجائے گا ۔لیکن اس کے پڑوس میں موجود سیتانہ کے سید ،یوسفزئی اور چغرزئی اس کے دشمن ہیں ۔جو اس کے علاقہ چھوڑنے کی صورت میں اس کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں
اگر پنجاب میں کسی بغاوت کے نتیجے میں سکھوں کی توجہ منتشر ہوتی ہے ،تو مجھے حیرت نہیں ہو گی اگر پائندہ خان کشمیر پر بھی چڑھائی کردے
وہ راستوں سے آگاہ ہے ،اور علاقے بھر کے مسلمان سرداربھی اس کی حمایت کرسکتے ہیں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال 1840 از کیپٹن ایڈورڈ بیری کونولی
سوہن لال سوری کی یادداشتیں 1840
سکھ سرکار کی عملداری میں واقع علاقوں میں پائندہ خان کی لوٹ مار اور بغاوت کی خبریں موصول ہونے کے بعد دربار کی جانب سے 6 ماگھ یعنی 17 جنوری 1840 کو ناظم کشمیر کو مظفرآباد سے فوجی دستے ہزارہ بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے
اس کے ساتھ ہزارہ میں تعینات سردار چراٹ سنگھ کو بھی پائندہ خان کی سرکوبی کیلئے تیاریوں کا حکم دیدیا گیا
عمدۃ التواریخ دفتر چہارم از سوہن لال سوری
برٹش انٹیلی جنس رپورٹ ہزارہ 8 جولائی 1844
ہزارہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پائندہ خان نے اپنے سپاہی دریائے سندھ کے کنارے جمع کیئے اور دربار کےخلاف مزاحمت پر آمادہ ہوا
ہزارہ میں تعینات جنرل ڈھوکل سنگھ کی قیادت میں سکھ فوج نے پائندہ خان پر قابو پانے اور اسے قریبی علاقوں سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی
لیکن پائندہ خان اور اس کے آدمیوں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے حملوں نے سکھ فوج کو زچ کر کے رکھ دیا
سکھ فوج چاہتی تھی کہ پائندہ خان مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طے کردہ شرائط پر صلح کرلے ۔جس کے جواب میں پائندہ خان نے جواب دیا کہ اسے مہاراجہ نے دس ہزار روپے سالانہ کی جاگیر اور اس کے بیٹوں کیلئے یومیہ 10 روپے دینے کا اعلان کیا تھا جو اب بھی ناظم ہزارہ کے پاس موجود ہیں
اور پائندہ خان انہی شرائط پر سکھوں کی بالادستی کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں
جنرل ڈھوکل سنگھ نے یہ شرائط دربار کو بھجوا دیں ،جہاں سے جواب موصول ہوا کہ یہ شرائط اسی صورت قابل قبول ہوں گی جب پائندہ خان سرخم تسلیم کریگا اور اپنے بیٹے کو دربار میں بھیجے گا
برٹش انٹیلی جنس رپورٹ ہزارہ سمتر1844
ہزارہ میں سکھ فوج کے سربراہ جنرل ڈھوکل سنگھ نے دربار کو خبر بھیجی ہے کہ سردارپائندہ خان اس وقت شدید علیل ہے ،اور اس نے اسے اپنا طبیب بھیجنے کی خواہش ظاہر کی ہے
ڈھوکل سنگھ نے اپنا طبیب پائندہ خان کے علاج کے لئے بھیج دیا ہے ،لیکن اس نے طبیب کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ علاج کے بہانے پائندہ خان کو زہر دے دیگا ۔
جنرل ڈھوکل سنگھ نے دربار کو خوشخبری بھیجی ہے کہ پائندہ خان جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے اور اس مصیبت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو نے والا ہے
یہ خبر سن کر راجہ ہیرا سنگھ بہت خوش ہوا ،اور اس نے خبر لانے والے سپرینڈنٹ کو ڈھائی سو روپے جبکہ پانچ سو روپے بطور انعام جنرل ڈھوکل سنگھ کو بھیجے
میجرجمیز ایبٹ پہلے ڈپٹی کمشنر ہزارہ کے 7 اگست 1851 کو پنجاب بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کو بھیجے گئے خطوط
اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں کے دوران پائندہ خان ایک سرکش اور طاقتور سردار تھا جو اپنے اردگرد کے قبیلوں پر حاوی رہا ۔لیکن جب اس کا سامنا طاقتور سکھ حکومت سے ہوا تو اس نے کالاڈھاکہ کے قبائل کیساتھ بہتر تعلقات استوار کر لئے ،جہاں وہ مختلف مواقع پر پناہ گزیں ہوئے۔جنہیں انہوں نے مختلف علاقوں میں چراگاہیں فراہم کررکھی تھیں
سیکرٹری پنجاب حکومت ٹی ڈی فارستھ کے خطوط بنام سیکرٹری حکومت ہند محکمہ خارجہ 21 مارچ 1863
ہزارہ کی سرحد پر واقع مغربی تناول کا موجودہ سردار محمد اکرم خان 13 سال کا کم سن لڑکا ہے ،اس کا دادا پائندہ خان سرحدی علاقوں کا مشہور سردارتھا جس نے کبھی سکھ سیادت قبول نہیں کی
A Collection of Papers Relating to the History, Status and Powers of the Chief of Amb (KP Archives Directorate)
تاریخ سکھ از ہری رام گپتا مطبوعہ 1991
پائندہ خان تنولی لومڑی کی طرح چالاک اور چیتے جیسا پھرتیلا تھا ۔وہ سکھوں اور ہندوئوں پر حملوں کے لئے سکھ قلعوں کے سامنے ہوا بھر مشکیزوں کے ذریعے دریائے سندھ کو عبور کرتا ۔پکھل ،دھمتوڑ،چھچھ ،ہزارہ کے علاقے اس کا ہدف ہوتے ،
اسے صرف ہری سنگھ نلوہ رکاوٹ ڈال پایا لیکن 1837 میں ہری سنگھ کی موت کے بعد اسے کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ۔
1840 میں ایڈورڈ کونولی نے پائندہ خان سے اس کی شکار گاہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا
میری شکار گاہ دریا پار تھی اور سکھ میرا شکار ہوتے تھے
نواب پائندہ خان نے 1844 میں وفات پائی
History of the Sikhs, Volume V, by Hari Ram Gupta.
جہانداد خان تنولی نوجوان محقق اور تاریخ دان ہیں جو خطے اور بالخصوص ہزارہ کی تاریخ پرگہرا عبور رکھتے ہیں
ان کے مزید مضامین https://ambstate.com/ پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں
تلخیص و ترجمہ :صفدرحسین