دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

سوشل میڈیا اور تاقیامت کرسی۔۔۔۔مسرت اللہ جان

مسرت اللہ جان


اپنے منہ کی بو کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی ویسے یہ بو جسے بدبو بھی کہا جاسکتا ہے معدے کی وجہ سے ہوتی ہے جو کچھ ہم کھاتے ہیں ‘ جو ہم بولتے ہیں اس کا اثر ہمارے معدے پر ہوتا ہے اور پھر سڑاند جسے ہم بو سمجھتے ہیں

ہمارے معدے سے نکلتی ہے یہ بدبو صر ف رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں ہی محسوس ہوتی ہے عام دنوں میں ہم یہ سڑاند جسے اگر محسوس کیا جائے تو ابکائیاں آنے لگتی ہیںبرداشت ہی نہیں ہوتی.کوئی بھی اپنے منہ کی بدبو برداشت نہیں کرسکتا –


ماماگان کی حکومت اور غریب کی تشریف ۔۔۔۔مسرت اللہ جان

صحافت ،مقدس پیشے سے مافیاز کی آماجگاہ تک ۔۔۔مسرت اللہ جان


یہ صرف رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں لوگوں کوزیادہ ترمحسوس ہوتا ہے جبکہ جو لوگ اس معاملے میں حساس ہوتے ہیں وہ یا تو مسواک کا استعمال کرتے ہیں یا پھر مائوتھ واش کا استعمال کرتے ہیں جس سے کسی حد تک انسان اپنے منہ کی بدبوچھپا لیتا ہے.

رمضان المبارک کے بعد کرونا واحد بیماری ہے جس نے ہر ایک شہری کے منہ پر ماسک پہنا دیا ہے ‘ اور اسی ماسک کی وجہ سے ہر کوئی روز اپنے منہ کی بدبو سونگھتا ہے بھلے سے کوئی دودھ پیتاہو یا پھر بازار میں سڑی گندی چیزیں اس کے منہ سے لازمی بدبو آئیگی .

لیکن اگر کوئی گندی چیزیں کھائے گا تو پھر لازمی بدبو اتنا ہی لازمی ہوگی ہاں اس بدبو میں جھوٹ ‘ غیبت کے اثرات بھی ہوتے ہیں جو کہ محسوس کئے جاسکتے ہیں لیکن اگر کوئی کرنا چاہے ..اس حوالے سے ٹی وی پر اشتہار بھی چلتے ہیں جس میں ایک شخص کے منہ سے بدبو آتی ہے تو لوگ اس سے دور رہتے ہیں

لیکن اگر وہ شخص مائوتھ واش کا استعمال کرتا ہے تو پھر بدبو نہیں محسوس نہیں ہوتی .خیر یہ تو ایک اشتہار ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنے منہ کی بدبو سونگھنا اور برداشت کرنا بڑے دل اور گردے کی بات ہے یہ الگ بات کہ پہلے رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں سونگھنے کو ملتی تھی اب تو کرونا کی وجہ سے ہر وقت منہ کا ذائقہ بھی عجیب رہتا ہے اور بدبو بھی اتنی محسوس ہوتی ہے کہ ابکائیاں آنی لگتی ہیں-

اتنی لمبی تہمید حکمرانوں کے منہ سے نکلنے والے سڑاند کی جانب توجہ دلانا ہے موجودہ حکمران اور سابقہ سیاستدان جو بولتے تھے اس کے اثرات تو ان پر پڑتے ہی ہیں لیکن ان کے بدبو ہمارے پورے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں

یقین نہیں آتا تو پھر سوشل میڈیا پر پڑے سیاستدانوں کے منہ سے نکلنے والی غلاظتوں کو دیکھ لیں-منہ کے سڑاند تو اب رمضان کے بجائے کرونا کی وجہ سے روز ہی محسوس ہوتی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر حکمران جماعتوں کی کارناموں کی سڑاند محفوظ ہوتی ہیں

جسے عوام گاہے بگاہے نکالتے رہتے ہیں-وقت کیساتھ بدلنے والوں میں ذرا بھی حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں-یہ تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کا شکریہ جنہوں نے ان سیاستدانوں کے منہ کے سڑاند دکھانے شروع کردئیے ہیں جنہیں سن کر اور دیکھ کر ابکائیاں آنے لگتی ہیں-

اس معاملے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کی کارکردگی بہترین ہے کہ ہر ایک صارف کواس کے ایک سال قبل کی کارنامے جو اس نے فیس بک پر دئیے ہوتے ہیں سال پورا ہونے پر یادگار کے طور پر سامنے لاتا ہے اور اسے بھلاتا بھی نہیں جس سے لوگ بہت زیادہ مستفید ہوتے ہیں

اب اگر کسی سیاستدان نے ابکائیوں والا بیان دیا ہے منہ کی سڑاند نکال دی ہے اور فیس بک پر ڈال ہے تو لازما ایک سال بعد وہ سامنے آئیگی بھلے سے کچھ بھی ہو لیکن ہر ایک شہری بالخصوص سیاستدانوں کو ان کے سڑاند دکھانا فیس بک کا ہی شیو ہ ہے .

ہم وہ قوم ہیں کہ ہم اپنی منہ کی بدبو برداشت نہیں کرسکتے . ہمارے حکمران وہ لوگ ہیں جو اپنے گذشتہ کل کے اپنے بولے الفاظ نہیں برداشت نہیں کرسکتے . اس میں کسی خاص حکومت کا ذکر نہیں ‘ پاکستان کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمارے حکمران بھی مائوتھ واش لگا کر منہ کا ذائقہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے کرتوت ‘ اپنے لکھے الفاظ ‘ فیصلے نہ تو برداشت کرسکتے ہیں .

تین سے چار دن پورے ملک میں انٹرنیٹ کی تھری جی اور فور جی کی سروسز مکمل طور پر بند کردی گئی کیونکہ ایک جماعت کے مطالبات تھے اور اس حوالے سے حکومتی معاہدے بھی موجود تھے .

لیکن حکمران وہ پورے نہیں کررہے تھے اور پھر تین دن انٹرنیٹ کی سروسز بند کردی گئی کہ حکمرانوں کی سڑاند جنہیں اگر محسوس کیا جائے تو ابکائیاں آنے لگتی ہیں عام لوگو ں تک نہ پہنچ سکے-

ایسے میں طوائفوں سے بدتر طور پر کام کرنے والی الیکٹرانک میڈیا نے واقعات کا مکمل بائیکاٹ کیا کیونکہ سیٹھوں کو اشتہارات کی فکر ہوتی ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ عوام کس حال میں ہیں ‘ ان کے مطالبات کیا ہیں ؟

یہ بھی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بیشتر اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں نہ انہیں کارکن صحافی کی فکر نہ ہی عوام کا خیال ‘ لیکن سوشل میڈیا پر عوام نے حکمرانوں کی منہ کی بدبو یعنی سڑانددکھانے شروع کردی تو پھر صرف ایک ڈرامہ کرکے یہ ظاہر کیا گیا کہ تین گھنٹے انٹرنیٹ کی سروسز بند ہے

حالانکہ تین دن سے زائد انٹرنیٹ کی سروسز بند رہی-پھر حکمرانوں نے ابکائیوں والے کام پھر شروع کردئیے ‘ سیاسی جماعت کالعدم قرار دیدی گئی اور پھر چند مفاد پرستوں نے وہ وہ پراپیگنڈے کئے کہ الامان الحفیظ ‘ پھر اسی کالعدم جماعت سے مذاکرات بھی ہوئے ‘ جس میں سرکار کی طرف سے بھی مولوی بٹھا دئیے گئے.

سوال یہاں پر یہ نہیں کہ ایک تنظیم ایک دن میں کالعدم کیسے ہوگئی اور پھر کیسے ختم ہوگئی سوال یہ ہے کہ جو تین دن حکمران طبقہ کرتا رہا کیا اس کی سڑاند یعنی بدبو نہیں ہوگی

ٹھیک ہے انہوں نے وقتی طور پر منہ میں مائوتھ واش ڈال دئیے ‘ ماسک لگا دیئے کوئی اور محسوس نہیں کرے گا لیکن کیا حکمران طبقے کو اپنے کئے کی سڑاند اب بھی محسوس نہیں ہورہی .

کیااس ملک کے عوام اس بدبو کو محسوس نہیں کررہے. کیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بدبو میں اضافہ نہیں ہوگا یہ وہ سوال ہیں جو حکمرانوں ‘ ان کے کاسہ لیسوں اور خوشامدی چمچوں بشمول سرکاری مولویوں سے کرنے کے ہیں.یقینا کرسی کا نشہ بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن کیا یہ کرسی حکمرانوں کے پاس قیامت تک رہے گی.


25 سال سے قلم قافلے میں شامل مسرت اللہ جان نے پشاور یونیورسٹی کے آئی پی ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ جرنلزم میں 2014 میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی ۔خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے واحد صحافی ہیں جنہوں نے ایشین کالج آف جرنلزم چنائی بھارت سے موبائل جرنلزم کی تربیت حاصل کی ،مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس صحافی کام کررہے ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھے ان کے کالمز تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں ،پاکستان فیڈریشن کونسل آف کالمسٹ کے صوبائی نائب صدر ہیں