ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی جیب کڑکتے نوٹوں یا کھنکھتے سِکّوں سے بھری ہو۔ بارہا ایسا ہوا کہ بوجوہ جیب اور پیٹ خالی ہوۓ‛ لیکن یہ دورانیہ بفضلِ الہی کبھی بہت طُول نہ کھینچ پایا ۔۔۔ تاہم ایسی کیفیت سے لطف اندوز ہونے کا تجربہ بڑا منفرد ہوا کرتا ہے۔ بندے کی ”میں“ خوب مرتی ھے۔

ایسی ہی صورتحال میں ایک بار چھڑستان (بیچلر ہاسٹل) سے نکلے تو قدموں نے خودبخود ہی بازار کی بجاۓ ایک قریبی پارک کا انتخاب کیا۔
پارک میں پیپل کی گھنی چھاؤں میں ایک فولادی بنچ پر لیٹ گئے۔ تادیر لیٹے رہے۔ پیٹ جب خالی ہو تو خواب بھی بڑے مصالحے دار (Spicy) آتے ہیں۔


آنکھ کھلی تو خود کو ابا کے سینے سے چمٹے ہوئے دیکھا…

امیر حمزہ،اک عاشق صادق


اچانک کہیں سی ایک ادھیڑ عمر بھکارن آئی اور ہمارے صاف ستھرے لباس سے مغالطہ کھا کر دستِ طلب بڑھا دیا : "وے کجھ دے اللہ دے ناں دا صاحبا ۔۔۔!!!”
ہم پہلے تو منہ پھیر کر ہنسے … پھر کبھی اس کے سوالی ہاتھ کو دیکھتے اور کبھی اپنی خالی اوقات کو۔ یہ کہنے کی جھوٹی جرأت بھی نہ تھی کہ ‛جاؤ معاف کرو۔‛
آخر کار کہا : "مائی ! ہم دونوں میں فرق یہ ہے کہ تٔو نے مانگ لیا اور میں مانگ نہیں سکتا۔”
مائی نے ہماری طرف بڑھا ہوا ہاتھ یک دم کھینچ لیا اور بغیر کچھ کہے لوٹ گئی۔ ہم سمجھے کہ بات ٹل گئی مگر کچھ ہی ثانیے بعد وہ پلٹی ‛ قریب آئی اور بڑی کریمانہ مسکراہٹ کے ساتھ مبلغ پانچ سو کا ایک سلوٹ زدہ نوٹ ہماری طرف بڑھا کر بولی : ” تے فیر ایہہ رکھ لے صاحبا۔۔۔“
”او نہ جی نہ ۔۔۔ “ بے اختیار ہمارے منہ سے نکلا۔
وہ دو قدم اور آگے بڑھی اور بولی :
”جدوں دل چاہے موڑ دیٸیں۔ اسی بازار میں ہی ہوتی ہوں۔“ اس کا لہجہ گویا خدا کا لہجہ ہو۔
ہم نے نوٹ لے لیا کہ کہیں خدا ناراض نہ ہو جاۓ۔ البتہ اس جھریوں بھرے سانولے مقدس ہاتھ کو دستِ مادری جان کر چوم بھی لیا۔