سید عتیق الرحمان شاہ

سورج کے گرد زمین کی گردش اور زمین کے گرد چاند کی گردش نے انسان کو وقت کے ناپنے کا طریقہ بتایا ۔ زمین سورج سے 150ملین کلومیٹر دور ہے اور سورج کے گرد زمین کا ایک چکر تقریباً 15کروڑ کلومیٹر پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یعنی زمین آج جس جگہ سے گزر رہی ہے اگلے سال پھر اسی جگہ سے گزرنے کے لئے اسے ایک سال میں 15کروڑ کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہوگا ۔ اس حساب سے زمین ایک سیکنڈ میں 29کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے ۔ زمین اپنے مدار پر 15کروڑ کلومیٹر کا طویل سفر ایک سال میں مکمل کرتی ہے جدید سائنسی معلومات کے مطابق سورج کے گرد زمین کا ایک چکر 365دن 5گھنٹے 48منٹ اور 46سیکنڈ میں مکمل ہوتا ہے ۔

365دن تو ایک سال کے شمار میں آتے ہیں لیکن اوپر کے پانچ گھنٹے 48منٹ اور46سیکنڈ ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ یوں ہر چار سال بعد اس اضافی وقت پر مشتمل ایک دن بن جاتا ہے جسے لیپ کے سال کے ذریعے دوبارہ حساب میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ ہر چوتھا سال 366دن کا شمار کیا جاتا ہے یہ لیپ کے سال کا چکر بھی عجیب ہے ۔ کیوں کہ چار سالوں میں یہ اضافی مدت23گھنٹے ، پندہ منٹ اور4سیکنڈ بنتی ہے لیکن شمار میں 24گھنٹے آتے ہیں یہ فرق سو سالوں میں 24دن 5گھنٹے 6منٹ 40سیکنڈ بنتا ہے جب کہ شمار میں 25دن بن جاتے ہیں اس کا قاعدہ یہ بنایا گیا ہے کہ صدی کا آخری سال لیپ کا سال نہیں ہوتا ۔

یوں اس حساب کو برابر کر لیا جاتا ہے ۔ لیکن 400سالوں میں پھر ایک دن اضافی بن جاتا ہے اس لیئے ہر چار سو سال بعد والی صدی کا آخری سال لیپ شمار کیا جاتا ہے اس میں پھر فرق رہ جاتا ہے 4000سالوں میں 970دن کا اضافہ کیا جاتا ہے جب کہ اضافی دنوں کی صحیح تعداد 969ہوتی ہے اس لیئے ہر چار ہزار سال بعد والا سال لیپ شمار نہیں کیا جاتا پھر بھی معمولی سا فرق رہ جاتا ہے اور ہر بیس ہزار سال بعد ایک دن کا فرق پڑتا ہے ۔
سال کی یہ تقسیم شمسی تقویم یا شمسی سال ہے ۔

زمین کی دو گردشیں ہیں ایک یہ کہ زمین اپنے محور پر گردش میں ہے اپنے محور پر گردش کا دورانیہ چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسری دوری یا اپنے مدار پر گردش ۔ جسے زمین ایک سال میں مکمل کرتی ہے ۔ سورج کے سامنے جس مقام سے زمین آج گزرے گی اسی مقام پر اگلے سال پھر اسی تاریخ کو گزرے گی اس تمام عرصے کو ایک سال قرار دیا گیا اور سال کو بارہ مہینوں پر تقسیم کیا گیا ۔

مہینوں کو دنوں پر اور دنوں کو پہروں پر ۔ اس طرح دن ، مہینے ، سال بنتے گئے اور انسان نے انہی کے ذریعے عمروں کا تعین کرنا شروع کر دیا ۔ یہ تو تھی وقت سے متعلق انسانی سوچ کے ارتقائی سفر کی کہانی ۔ یہ باتیں قدیم یونانیوں اور رومنوں نے قبل مسیح کے زمانے میں دریافت کر لی تھیں ۔ بعد ازاں یہ علم ہیت کی شکل اختیار کر گیا ، فلکیاتی مطالعے اور مشاہدے نے وقت کے پیمانے مقرر کرنے میں انسان کی مدد کی اور اللہ نے فلکیاتی مشاہدات سے انسان کو وہ علم دیا جو انسان نہیں جانتا تھا ۔ جب انسان نے سالوں کی پیمائش کر لی تو اس نے تقویم ہائے شمس و قمر تشکیل دیں ۔ تاریخوں ، دنوں ، ہفتوں ، مہینوں ، سالوں اور صدیوں کے تعین کو تقویم کہتے ہیں اسی تقویم کو انگریزی زبان میں کلینڈر کہا جاتا ہے

اس وقت ہمارے ہاں جو شمسی کلینڈر رائج ہے اسے ہم عیسوی سنہ کہتے ہیں اس کا اصل نام گریگورین کلینڈر ہے ، گریگورین کلینڈر 1582ء میں پوپ گریگوری نے نافذ کیا تھا ۔ یہ ان ساٹھ سے زائد کلینڈروں میں سے ایک ہے جو دنیا بھر میں رائج ہیں ۔ گریگورین کلینڈر جیولین کلینڈر کی ترمیم شدہ شکل ہے اور جیولین کلینڈر قدیم رومن کلینڈر کی ترمیم شدہ شکل تھی ۔ جولین کلینڈر کا آغاز قدیم رومن بادشاہ جولیس سیزر نے46قبل از مسیح سے کیا تھا اس سے قبل رومن کلینڈر رائج تھا جو قدیم شہر روم کی دریافت سے شروع ہوتا تھا رومن کلینڈر کے سات سو نو سال گزرنے کے بعد جولیس سیزر نے اپنا نیا جیولین کلینڈر 46قبل از مسیح میں رائج کیا تھا اور مہینوں کے جنوری فروری وغیرہ نام رکھے اس وقت بھی جولائی کے مہینے کا نام جولیس کے نام پر ہے ۔

اسی طرح آگسٹائن کے نام پر اگست کا مہینہ ہے ۔ یہ کلینڈر یا تقویم 1582تک یونہی چلتی رہی اس میں وقتاً فوقتاً ترامیم ہوتی رہیں جولیس سیزر کے تین سو سال بعد جب عیسائیت سلطنت روما کا سرکاری مذہب قرار پائی تو تب اس کلینڈر کا ناطہ عیسیٰ علیہ السلام سے جوڑ دیا گیا اور اسے عیسوی کلینڈر کہا جانے لگا ۔

وقت کی پیمائش درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کلینڈر میں بھی فرق آتا چلا گیا حتیٰ کہ 1582ء تک پہنچتے پہنچتے جیولین کلینڈر 10دن پیچھے رہ گیا اس موقع پر پوپ گریگوری نے 1582ء میں اس کلینڈر میں ترمیم کرتے ہوئے گریگورین کلینڈر نافذ کیا جسے اس وقت تک دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنا لیا ہے ابتدائی دو سو سال تک اسے برطانیہ نے بھی قبول نہیں کیا تھا تا ہم 1752میں انگلینڈ نے اسے اپنایا جولین کلینڈر کو جب گریگوری کلینڈر سے بدلا گیا تو اس وقت ان میں دس دن کا فرق تھا


یہ بھی پڑھیں

اس فرق کو یوں دور کیا گیا کہ 4۔اکتوبر 1582ء کے بعد اگلی تاریخ 15۔ اکتوبر1582ء مقرر کی گئی ۔ جب گریگورین کلینڈر کو انگلینڈ نے 1752ء میں نافذ کیا اس وقت تک جیولین کلینڈر اور گریگوری کلینڈر کے مابین فرق 11دن کا ہو چکا تھا اس لیئے فیصلہ کیا گیا کہ بدھ 2ستمبر 1752ء کے بعد اگلی تاریخ جمعرات 14ستمبر1752ء ہو گی نیز اسی سال یہ فیصلہ کیا گیا کہ سال کا پہلا مہینہ جنوری ہو گا اور یکم جنوری سے سال کا آغاز ہوگا اس سے قبل تیرہویں صدی سے لیکر 1752ء تک سال کا آغاز25مارچ سے ہوا کرتا تھاجب کہ ساتویں صدی سے لیکر تیرہویں صدی تک سال کا پہلا دن کرسمس یعنی25دسمبر ہوتا تھا ۔

اس وقت دنیا میں رائج مختلف کلینڈرز کی تعداد ساٹھ سے زائد ہے ان میں سے اکثر کلینڈر یکساں ہیں بطور خاص ہندوستان ، اوراس کے ملحقہ علاقوں کے کلینڈر درجنوں میں ہیں اور ان میں بنیادی یکسانیت موجود ہے ۔یہ سب شمسی کلینڈر ہیں ان کے علاوہ دنیا میں بے شمار کلینڈر پائے جاتے ہیں اور مختلف ممالک میں استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔

جلالی کیلنڈر جو آج بھی مستند ترین مانا جاتا ہے

پوپ گریگوری نے جولین کلینڈر میں جو ترمیم کی تھی وہ درحقیقت جلالی کلینڈر سے موازنے کے ذریعے کی تھی جو آج بھی مستند ترین سمجھی جاتی ہے اور یہ مستند ترین شمسی تقویم مشہور مسلمان ہیت دان عمر خیام نے پوپ گریگوری سے ساڑھے پانچ سو سال پہلے تیار کی تھی ۔ جسے سلجوقی فرماں روا جلال الدین ملک شاہ سلجوقی کے نام پر جلالی تقویم کا نام دیا گیا یہ تقویم 15مارچ 1079 ء سے نافذ کی گئی دنیا میں لیپ کے سال کا تصور عمر خیام نے ہی پیش کیا تھا جسے ساڑھے پانچ سو سال بعد پوپ گریگوری نے بھی اپنایا۔ اس وقت بھی ایران کی سرکاری تقویم جلالی تقویم ہے ۔

عمر خیام نے سب سے زیادہ بہتر شمسی تقویم تیار کی ہے اسی سے گریگورین تقویم تیار کرنے میں مدد لی گئی ۔ عمر خیام کی سال کی پیمائش اس قدر بہترین ہے کہ اس وقت بھی اس میں 5500سالوں میں صرف ایک گھنٹے کا فرق واقع ہوتا ہے جبکہ گریگورین کلینڈر کے مطابق اتنے عرصے میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے۔ جلالی تقویم کے مہینوں کو ہم ستاروں کے نام سے جانتے ہیں ۔

جلالی تقویم کے سال کا پہلا دن 21مارچ ہے اور اس کے مہینوں کے نام حمل ، ثور ، جوزا، سرطان ، اسد ، سنبلہ ، میزان ،عقرب ، قوس، جدی ، دلو اور حوت ہیں ۔ اس کے پہلے چھ مہینے حمل سے سنبلہ تک 31دن کے جبکہ اگلے پانچ مہینے میزان سے دلو تک 30دن کے ہوتے ہیں جب کہ آخری مہینہ حوت 29دن کا ہوتا ہے البتہ لیپ کے سال میں اسے بھی 30دن کا شمار کیا جاتا ہے ۔ یہاں ایک اہم سوال ہے کہ گریگورین کلینڈر میں لیپ کا اضافی دن فروری میں کیوں رکھا گیا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ لیپ کا تصور عمر خیام نے دیا تھا جلالی تقویم کے آخری مہینے حوت میں ایک دن کا چار سال بعد اضافہ کیا جاتا ہے جب کہ حوت کا مہینہ 21فروری سے اور 21مارچ تک ہوتاہے ۔ اور اس اضافے کو من و عن پوپ گریگوری نے اپنے کلینڈر میں استعمال کرتے ہوئے حوت کے اضافی دن کو فروری میں ہی استعمال کیا۔ جلالی تقویم درحقیقت سورج کے گرد زمین کے طے کردہ راستے کو بارہ حصوں یا برجوں میں تقسیم کر کے ترتیب دی گئی ہے اسی لیئے جدید علم نجوم کی بنیاد اسی تقویم پر رکھی گئی ہے

سن ہجری یعنی مسلمان سال کی کہانی

اسلامی عبادات کے لیئے قمری تقویم کو معیار مقرر کیا گیا ہے جس میں چاند کے ذریعے وقت کا تعین کیا جاتا ہے ہم اسے اسلامی تقویم بھی کہتے ہیں ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ قمری تقویم کو اسلامی کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ شمسی تقویم غیر اسلامی ہے ۔ ہمارے ہاں یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ قمری تقویم کو اسلامی اور دوسری کو کافرانہ سمجھا جاتا ہے ۔

ایسی سوچ لاعلمی کے باعث پیدا ہوتی ہے ۔ مذہب نے عبادات فرض کیں تو ان عبادات کی ادائیگی کے لئے نظام الاوقات بھی ساتھ دیا ۔ اسلام جس معاشرے میں ابتدا میں آیا وہاں قمری تقویم رائج تھی اور اسی کے حساب سے رمضان اور حج وغیرہ کے وقت کا تعین کیا گیا ۔ کیوں کہ عرب معاشرے میں جیولین تقویم رائج نہیں تھی بلکہ وہاں محرم صفر کے حساب سے سال مکمل کیا جاتا تھا اس سال کو علم ہندسہ سے مربوط بھی نہیں کیا گیا تھا بلکہ جس سال کوئی اہم واقعہ پیش آجاتا اس سال کو اسی واقعے کی مناسبت سے نام دے دیا جاتا تھا ۔

جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کی جس سال ولادت ہوئی اسے عام الفیل کہا جاتا ہے ۔ عربوں میں اسی طرح ہرسال کے نام ہوتے تھے باقی کام حافظے سے چلایا جاتا تھا ۔ہجرت رسول الہ کے سترہ سال بعد حضرت عمر کے زمانے میں یمن کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کو ایک خط لکھا اور فرمایا کہ آپ کے مختلف فرامین ہمارے پاس جمع ہیں جن میں تاریخ تو موجود ہوتی ہے لیکن ہمیں سال کا علم نہیں ہوتا کہ سال کون سا ہے ۔لہٰذا آپ سال بھی لکھا کریں

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام کے مشورے سے ہجرت رسول اکرم کے بعد سے سالوں کو شمار کر کے ہجری تقویم ترتیب دی ۔ جب ہجری تقویم رائج ہوئی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے مدینہ میں کی جانیوالی ہجرت کو17سال گزر چکے تھے اس وقت جدید تحقیق کی روشنی میں ہجری سنہ کی پہلی تاریخ جمعہ یکم محرم الحرام1 ہجری بمطابق 16جولائی 622ء کی تاریخ تھی ۔

چاند زمین کے گرد اپنا چکر 29 دنوں اور بارہ گھنٹوں میں مکمل کرتا ہے نیز چاند ہر روز سورج کی بہ نسبت49منٹ دیر سے طلوع ہوتا ہے ۔ اگر آج سورج اور چاند دونوں 5بجے طلوع ہوئے تو اگلے روز چاند پانچ بجکر49منٹ پر طلوع ہو گا اس طرح چاند اپنا سفر 29دنوں میں مکمل کر لیتا ہے ۔ قمری سال انہی روزانہ کے انچاس منٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے شمسی سال سے گیارہ دن چھوٹا ہوتا ہے اس میں کوئی لیپ کا چکر نہیں ہوتا بلکہ اس کا تمام تر انحصار رویت ہلال یعنی چاند کے نظر آنے پر ہوتا ہے ۔

 دنیا میں رائج کلینڈرز

اس وقت دنیا میں ساٹھ سے زیادہ کلینڈرز رائج ہیں ۔ جن میں سے درجن بھر صرف پروفیشنل ہیں ۔ اور مخصوص مضامین میں استعمال ہوتے ہیں ۔ دنیا کی سب سے قدیم تقویم یہودیوں کی تقویم کو کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک عجیب و غریب تقویم ہے اس میں بھی بارہ مہینے ہوتے ہیں البتہ لیپ کا سال تیرہ مہینوں کا ہوتا ہے یہ سورج اور چاند دونوں کے حساب سے چلتی ہے یہ یہودی کلینڈر اس وقت اسرائیل سرکاری کلینڈر ہے ۔

ہمارے ہاں یکم جنوری2018کو یہودی کلینڈر کے دسویں مہینے کی 10 تاریخ ہے اور سن5778ہے ۔ یعنی 10-10-5778 یہودی کلینڈر کا اگلا سال 14ستمبر سے شروع ہو گا۔ یہودیوں کی روایات کے مطابق یہ کلینڈر حضرت آدم علیہ السلام کی آمد سے شروع ہوتا ہے یہ کلینڈر موجودہ عیسوی سن سے3760سال قبل شروع ہوا اس وقت تک یہودی روایات کے بقول حضرت آدم کے زمانے کو 5ہزار778سال گزر چکے ہیں ۔اگرچہ تاریخی اعتبار سے یہ بات غلط ثابت ہو چکی ہے ۔

چین میں رائج کلینڈر کے مطابق آج گیارہویں مہینے کی گیارہ تاریخ ہے اور ان کی سن 4715ہے چین والوں کا نیا سال 4716 اگلے ماہ یعنی فروری کی 19تاریخ کو شروع ہو گا ۔ ان کے کلینڈر میں سال کے بارہ مہینوں کے دن354ہوتے ہیں اور ہر چار سال بعد ایک مہینے کا اضافہ کر کے سال تیرہ مہینوں کا کر لیاجاتا ہے ۔

انڈیا میں زیادہ تر بکرمی کلینڈر ہی چلتا ہے ۔ بکرمی کلینڈر فصلوں کے حساب سے ترتیب دیا جانیوالا شمسی کلینڈر ہے ۔ انڈیا کے صوبہ کیرالہ میں ملایالم کلینڈر بھی گزشتہ آٹھ سو سال سے چل رہاہے اس کلینڈر کو استعمال میں لانے والے مختلف علاقوں کے لوگ مختلف تاریخوں سے اپنا سال شروع کرتے ہیں

14مارچ سے نانک شاہی کلینڈر بھی شروع ہوتا ہے جس کو انڈین پنجاب میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کا پہلا مہینہ چیت کا مہینہ ہوتا ہے ۔ لیکن انڈیا میں سب سے قدیم اور مستند کلینڈر بکرمی ہی رائج ہے جو عیسوی کلینڈر سے 57سال آگے ہے اور اس کا پہلا مہینہ بیساکھ ہوتا ہے اس کا سال یکم بیساکھ 13اپریل سے شروع ہوتا ہے ۔

سال کی کہانی

جاپانی اور آئرش کلینڈر یکم جنوری سے ہی شروع ہوتا ہے ،اسی طرح ایتھوپین کلینڈر کا سال پہلے 29اگست کو شروع ہوتا تھا ۔ اب انہوں نے اپنے سال کا آغاز11ستمبر سے شروع کر لیا ہے ۔ یہ کلینڈر بھی افریقہ کے آرتھوڈکس عیسائی استعمال کرتے ہیں یہ عیسوی سن کے ساتھ ساتھ ہی شروع ہوا تھا اور اس وقت اس کی سن 2010ہے ۔

ایک اور بہائی مذہب والوں کا کلینڈر بھی موجود ہے جو21مارچ1881ء سے شروع ہوا ۔ اس کلینڈر کا سال 19مہینوں کا ہوتا ہے اور ہر مہینہ 19دن کا ہوتا ہے ۔ اس کلینڈر کا سال 21مارچ سے شروع ہوتا ہے ۔ اسی روز کو نوروز کہا جاتا ہے ۔ ایران میں بہائی مذہب کے ماننے والے اس کلینڈر کا استعمال کرتے ہیں ۔ اس سال کے آخری مہینے کا نام اعلیٰ ہے اس میں 19روزے رکھے جاتے ہیں یہ مہینہ ہر سال یکم مارچ سے 20مارچ تک آتا ہے ۔ انہوں نے ہفتے کے سات دنوں کے نام بھی اپنے رکھے ہوئے ہیں ، وہ ہفتے کو جلال ، اتوار کو جمال ، اور اسی طرح آگے کمال ، فضال ، عدال ،استجلال، اور جمعے کو استقلال کہتے ہیں ۔

1987ء میں بنگلہ دیش نے بھی اپنا کلینڈر نافذ کیا جو ہندو کلینڈر سے ملتا جلتا ہے اس کلینڈر کی شروعات 12اپریل 594ء عیسوی سے کی جاتی ہے اس کا پہلا دن بیساکھی کا ہے جو ہر سال بارہ یا تیرہ اپریل کو ہوتی ہے اس کے مہینوں کے نام بھی بکرمی مہینوں جیسے ہیں ، بیساکھ جیٹھ ،اساڑھ وغیرہ

جنوب مشرقی ایشیائی بدھ ممالک کمبوڈیا، تھائی لینڈ میانمر اور سری لنکا میں بدھ کلینڈر رائج ہے ۔یہ کلینڈر اس وقت 2560سال کا ہو چکا ہے ۔ یہ کلینڈر 544قبل از مسیح سے شروع ہوتا ہے ۔ اس کا سال29مارچ سے شروع ہوتا ہے یہ بھی بکرمی تقویم جیسا ہی ہے اور اس کے مہینوں کے نام بھی ویسے ہی ہیں اس کا سال بھی 13اپریل سے شروع ہوتا ہے ۔

اب آخر میں دو ایسے کلینڈر جو خود میں نے ترتیب دیئے تھے ان سے بھی متعارف کروا دوں ۔ ان میں سے ایک کا نام میں نے سہ ماہی اور دوسرے کا دو سالہ کلینڈر رکھا تھا ۔ دو سالہ کلینڈر میں ہفتے کے بجائے نوروز کا نام استعمال کیا گیا تھا ۔ اس کلینڈر میں نو دنوں کا ایک نوروز، 9نوروزوں کا ایک مہینہ ، اور نو مہینوں کا ایک سال تھا ۔ اس میں ہر طاق سال کے نویں یعنی آخری مہینے میں ایک دن جبکہ ہر جفت سال کے آخر میں دو دنوں کا اضافہ کرنے سے وہ دو شمسی سالوں کے برابر ایک دو سالہ بناتا تھا

۔
اہم نوٹ : یہ آرٹیکل تیس دسمبر 2014 سے یکم جنوری دو ہزار پندرہ تک تین اقساط میں شائع ہوا تھا ۔ اس میں دی گئی تواریخ کو 2018 سے ایک بار تبدیل کیا گیا ہے ۔ اس طرح اگر دیگر کلینڈروں کی تاریخوں میں کوئی کمی بیشی پائی جائے تو وہ صرف اسی وجہ سے ہو گی ۔ جب لکھا تھا اس وقت کی تاریخ میں اور جب 2018 ء میں ترمیم کی گئی تو اس میں معمولی غلطی کا احتمال بہر کیف موجود ہے ۔