سید عتیق


افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء مکمل ہو چکا ہے ۔ گزشتہ شب آخری امریکی طیارہ کابل ایئرپورٹ سے اپنے آخری فوجی سمیت نکل گیا ۔ جس کے بعد امریکی صدر نے افغانستان میں جاری فوجی مشن مکمل ہونے کا اعلان کیا ۔

انخلاء کے آپریشن میں کل 1 لاکھ 23 ہزار افراد کو افغانستان سے نکالا گیا ۔ امریکہ کا سفارتی دفتر اب قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل ہو چکا ہے جہاں اس سے قبل طالبان کا سیاسی دفتر تھا۔ امریکہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ایئرپورٹ پر موجود 93 امریکی جہاز ، فوجی گاڑیاں ، اسلحہ اور راکٹ حملوں کا دفاعی نظام وغیرہ سب کچھ ناکارہ بنا دیا گیا ہے ۔

32 سال 6 ماہ قبل 15 فروری 1989ء کو یو ایس ایس آر ، یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک کا آخری فوجی افغانستان سے نکلا تھا اور اب 30 اگست 2021ء کو امریکہ کا اخری فوجی نکل رہا ہے ۔ تصویر احمداللہ متقی ٹوئٹر

تا کہ طالبان اسے استعمال نہ کر سکیں ۔ اب افغانستان ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست ہے جس پر طالبان کا قبضہ تو ہے لیکن ابھی تک کوئی منظم حکومت نہیں ۔

گزشتہ 33 سالوں میں افغانستان سے دوسری بار ایک عالمی طاقت اپنے مقاصد میں ناکام ہو کر نکلی ۔ 32 سال 6 ماہ قبل 15 فروری 1989ء کو یو ایس ایس آر ، یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک کا آخری فوجی افغانستان سے نکلا تھا اور اب 30 اگست 2021ء کو امریکہ کا اخری فوجی نکل رہا ہے ۔


یہ بھی پڑھیں


فرق صرف یہ ہے کہ روس کی کٹھ پتلی انتظامیہ ڈاکٹر نجیب کی سربراہی میں اس وقت کابل میں موجود تھی جب روس نکلا ۔ مگر امریکہ کے نکلنے سے پندرہ دن پہلے ہی امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ ڈاکٹر اشرف غنی کابل سے فرار ہو چکے ہیں ۔ عملاً اس وقت تک افغانستان کی حکومت کے کسی سربراہ کا تقرر نہیں ہو سکا ۔

پچاس سال قبل دنیا میں روس اور امریکہ کا ڈنکا بجتا تھا ۔ مشرق بعید میں امریکیوں نے روس کا مقابلہ کرنے کے لییے کوریا کے بعد ویت نام کا انتخاب کیا ۔ پہلے ویت نام پر قبضے کی کوشش کی ۔ ناکام ہونے پر ویت نام کو شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم کیا ۔

سوویت انجام سے دوچار ہونے تک امریکی پراکسیز کا خطرہ برقرار رہنے کا اندیشہ

شمالی ویت نام کی پیپلز لبریشن آرمی کو روس اور جنوبی ویت نام کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ 30 اپریل 1975ء کو جنوبی ویت نام کے دارلحکومت سائیگون پر روسی حمایت یافتہ پیپلز آرمی آف ویت نام نے قبضہ کر کے امریکی حمایت یافتہ آرمی آف ریپبلک ویت نام کو بھگا دیا اور صدارتی محل پر اپنا جھنڈا لگا کر سائیگون کا نام شمالی ویت نام کے کیمونسٹ صدر ہوچی من کے نام پر ہوچی من سٹی رکھ دیا ۔

امریکہ ویت نام کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے موقع تلاش کرتا رہا اور پانچ سال بعد افغانستان میں روس کی مداخلت نے امریکہ کو یہ موقع دے دیا ۔ روس کے خلاف لڑنے والوں کو آزادی کے مجاہد قرار دے کر امریکہ نے اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا ۔

افغانستان کے جنگجوئوں نے پاکستان کی پشت پناہی، عربوں کے پیسوں اور امریکہ کے سٹنگر میزائلوں سے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا روس کو بدترین مزاحمت کا سامنا تھا ۔ ماسکو میں بزرنیف کے بعد گوربا چوف صدر بنے تو دیکھا افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کو تحفظ دیتے دیتے ہم گلے تک جنگ میں دھنس چکے ہیں ۔

افغانستان پر روس کا مقرر کردہ صدر ببرک کارمل بھی اپنا اقتدار و اختیار بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تو گوربا چوف نے بھی افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں ۔

سائیگون سے کابل تک کے واقعات پر پھیلی اس کہانی کا اختتام ابھی نہیں ہوا ۔ ابھی مستقبل میں بھی یہ سرد جنگیں اور پراکسی وارز جاری رہیں گی اس وقت تک جب تک یو ایس اے بھی یو ایس ایس آر جیسے انجام سے دوچار نہیں ہو جاتا ۔