گذشتہ روز سندھ کے شہر ڈھرکی میں دو مسافر ٹرینوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں 40 سے مسافر جاں بحق جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوئے ،اس واقعہ نے ریلوے کے فرسودہ اور کھوکھلے نظام کو ایک بار پھر عیاں کرکے رکھ دیا ہے

پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ حادثات رونما ہورہے ہیں ،جس کی بنیادی وجہ پرانی اور از کاررفتہ ریلوے لائنیں ،بوسیدہ بوگیاں اور ناکارہ انجن ہیں ۔

اگرچہ ہر آنے والی سیاسی حکومت ریلوے نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کا دعویٰ لیکر اقتدار میں آتی رہی ہے ،لیکن عملی طور پر اول تو کام ہوئے ہی نہیں اور جو ہوئے وہ بھی انتہائی محدود پیمانے پر جس کے مطلوبہ نتائج کبھی بھی نہ مل پائے


یہ بھی پڑھیں 

  1. داستان اردو،بزبان اردو

دیکھا جائے تو پاکستان ریلوے آج بھی ملک بھر میں طویل سفر کرنے والے مسافروں کی اولین ترجیح ہے ،لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ریلوے کی بگڑتی ہوئی صورتحال مسافر کو مہنگے اور غیر محفوظ سفری ذرائع استعمال کرنے پر مجبور کررہی ہے

گذشتہ روز کے افسوسناک سانحہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ ۤ اس افسوسناک سانحہ پر انہیں گہرا صدمہ ہے ،اور میں نے اس معاملے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیدیا ہے ٗ

ماضی کی تحقیقاتی رپورٹس کہاں گئیں؟

یہ شاید عمران خان کی جانب سے پہلی بار ایسا ردعمل سامنے نہیں آرہا ،بلکہ ماضی میں بھی ہر چھوٹے اور بڑے حادثہ کے بعد وزاراء اعظم اور وزارائے کرام کی جانب سے ایسے بیانات آتے رہے ہیں،لیکن آج تک کسی حادثہ کی نہ تو کوئی تحقیقاتی رپورٹ کبھی سامنے آسکی ہے اور نہ ہی کبھی ذمہ داروں کےخلاف کاروائی ہوئی ہے ۔ہر سانحے اور حادثے کے بعد چند روز تک گھسے پٹے بیانات دہرائے جاتے ہیں اور پھر معاملہ داخل دفتر کردیا جاتا ہے

لیکن برسرزمین حالات جوں کے توں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ابتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اگرچہ موجودہ حکومت جس انداز میں چاروں اطراف سے مسائل میں گھری ہوئی نظر آتی ہے ان میں ریلوے کے حوالے سے کسی بڑے قدم کی توقع محض خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے

کیونکہ پاکستان ریلوے کی تباہی ایک دن یا ایک سال کی کہانی نہیں بلکہ گذشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے مسلسل نظرانداز کئے جانے کا نتیجہ ہے ،لیکن موجودہ حکومت کو بھی اس سارے معاملے میں کلی طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ،

جس نے روز اول سے لیکر اب تک ریلوے کی بہتری کیلئے کوئی ایسا ٹھوس یا پائیدار قدم نہیں اٹھایا جس سے مستقبل قریب میں ریلوے کی بہتر کیلئے کوئی امید نظر آرہی ہو اور نہ ہی وہ سابقہ حکومتوں پر سارا ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے

حالیہ عرصہ کے دوران رونما ہونے والے حادثات کے بعدوزیر اعظم عمران خان ریلوے کی بہتری کےلئے بیانات تو دیتے رہے ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پرکوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جاسکا ،جس کے نتیجے میں ریلوے نظام میں بہتری آئی ہو ،یا مسافروں کی حفاظت کےلئے نظام بہتر ہوا ہو

اور نہ ہی موجودہ حکومت کے دور میں جو کہ خود انصاف اور احتساب کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئی تھی کے دور میں غفلت یا کرپشن کے مرتکب ریلوے کے کسی بڑے افسر یا وزیر کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی ہے

ان سب سے بڑھ کر قابل تشویش پہلو یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی سابقہ ادوار کی طرح حکومت اور انتظامیہ کے پاس ریلوے نظام کی تجدید اور بہتری کےلئے کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل موجود نہیں

ممکنہ چینی سرمایہ کاری ہی فوری اور بہتر حل ؟

اگرچہ ماضی قریب میں چین کی جانب سے پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن کی تجدید کیلئے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے سے دم توڑتی ریلوے کی حیات نو کی امید پیدا ہوئی تھی ۔لیکن فی الحال چین اس منصوبے پر سرمایہ کاری سے گریزاں نظر آرہا ہے

جبکہ چینی سرمایہ کاری یا اس کے بغیر ریلوے کی نشاۃ ثانیہ کیلئے دیوالیہ کے قریب پہنچے اس ادارے کےلئے کوئی متبادل منصوبہ موجود نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بھاری سرمایہ کاری (خواہ وہ چین کو ہی کسی صورت آمادہ کیا جائے )کے بغیر ریلوے کی سانسیں بحال کرنا کسی صورت ممکن دکھائی نہیں دیتا

ریلوے جیسے بڑے ادارے کو واپس اپنے قدموں پر کھڑاکرنا محض بیانات سے کسی صورت ممکن نہیں اور نہ ہی یہ ایک دو ہفتے کی بات ہے ،بلکہ اس کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی ،مضبوط سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے ،جس کا فیصلہ اگر آج کرلیا جائے تو منزل کیلئے ہمارے سفر کا ایک قدم اور کم ہو جائے گا