لطیف اللہ داودزئی
پشاور
جمہوری ریاستوں میں اقتدار کی کر سی تک پہنچنے کے لئے عوام کی کمزوریوں کو ڈھال بنا کر کامیابی سے ہمکنار ہو نے کا ہنر تو کوئی سیاست دانوں سے سیکھے کوئی روٹی کپڑا مکان کی لایچ میں عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں کچھ کشکول ہاتھ میں لئے ملک کو قر ضوں کی دلدل سے نکالنے کے نعروں پراقتدار میں آتے ہیں اور مزید قرض لیتے ہیں
کوئی اسلام کے نام پر ووٹ لے کر اسلام کی بجائے اسلام اباد کے ہو جاتے پہیں ۔ بے چارے عوام ہیں جو ہر بار نئے آنے والے کے فریب میں جان بوچھ کر اس لئے آجاتے ہیں کہ قسمت اب بدلی کہ تب بدلی
،اور پھر سب سے بڑھ تبدیلی کے دعویدار میدان میں آئے تو ان کی چلت پھرت دیکھتے ہوئے عوام کو پختہ یقین تھا کہ پچھلے سارے تو کرپٹ ،نااہل اور چور اچکے ہمارے متھے مار دیئے گئے تھے ،اب اصل ایماندار اور مخلص لوگ ہمارے نصیب میں لکھ دیئے گئے ہیں ،اور اب ہماری تقدیر کو بدلنے سے کوئی نہیں مائی کا لعل روکنے کی جرات نہیں کرسکتا
بسا کہ آروز خاک شد
لیکن عملی طور پر ایک بار پھر ہمارے ساتھ وہی ہوا جو اس سے قبل ہوتا آیا ہے ۔کیوں کہ پی ٹی ائی ماضی کے تمام نااہلوں اور چوروں سب پر بازی لے گئی اور چور آیا ڈاکو آیا کا انکھیں بند کر کے ورد کرتے کرتے گذشتہ سات آٹھ سال میں ملک کو وہاں پہنچادیاکہ اب تو بھی پریشاں ہیں کہ وہ حیران ہوں یا پریشاں ؟
باقی شعبوں کا حال بھی کچھ اتنا متاثر کن نہیں لیکن موجودہ حکومت کا صحت ایمرجنسی پروگرام ہر گزرتے دن کیساتھ بد سے بدتر ہو تا گیا اور اس میں بہتری کے تمام تر دعوے وعدے صرف میڈیا کی حد تک محدود رہے یا سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہے
یہ بھی پڑھیں
- صحت کارڈ کے تحت دوران آپریشن بچے کی موت پر ہسپتال سیل، مقدمہ درج
- قیام پاکستان سے قبل متعارف ہونیوالی 76 سالہ پرانی ایمبولینس گاڑی ایک بار پھر خدمت کیلئے تیار
- پنجاب انفراسٹرکچرڈیولپمنٹ اتھارٹی خیبرپختونخواہ کے 6 ہسپتالوں کو تعمیرنو کریگی
- ایبٹ آباد ،1122 کی ایمبولینس میں خاتون کی حالت بگڑنے پربچی کی پیدائش
خیبرپختونخواہ کے تمام بڑے شہروں کی سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی کے حوالے سے ہر روز اخباروں کے صفحے کالے ہوتے رہتے ہیں ،جب بڑے شہروں کی یہ حالت ہو جہاں تمام تر سرکاری مشینری ،وسائل اور عمال ہر وقت موجود ہوں تو ان حالات میں چھوٹے اور دیہی علاقوں کی کیا صورتحال ہوسکتی ہے اس کا اندازہ ہر ذی شعور گھر بیٹھے بھی کرسکتا ہے
پشاور سے شمال کی طر ف محض 9 کلو میٹر کے فاصلے پر یونین کونسل کانیزہ بی ایچ یو چارپریزہ کی حالت دعوئوں اور حقیقت کے درمیان فرق کو زبان حال سے بیان کرتی دکھائی دیتی ہے۔
بی ایچ یو چارپریزہ 80 کی دہائی میں بنی تھی ۔ جسکا کل رقبہ 5 کنال پرمحیط ہے جس میں چار چھوٹے کمرے ہیں 2 کمرے خستہ حالی کی وجہ سے بوسیدہ حآلت میں بند پڑے ہیں جو کسی وقت بھی زمین بوس ہوسکتے ہیں
ایک کمرہ ڈاکٹر اور ایک میں میڈیسن سٹور بنا ہوا ہے جسکی چھت بھی اتنی خراب حالت میں ہے کہ وہ کسی وقت بھی کسی حادثہ کا سبب بن سکتی ہے ۔اس وقت بی ایچ یو چارپریزہ کا سٹاف عمارت گرنے کے خوف سے ڈاکٹر کے بنگلہ میں شفٹ ہو گیا ہے ۔
جو نام کا تو بنگلہ ہے لیکن اپنی حالت سے بھوت بنگلہ ہونے کا اعلان کرتا ہے ۔ایک بڑے علاقے کی واحدطبی سہولت ہونے کی وجہ سے بی ایچ یو چارپریزہ میں روزانہ سینکڑوں مریض علاج کے لئے اتے ہیں لیکن سہولیات نہ ہو نے کی وجہ سے اکثریت بغیرعلاج کئے واپس چلے جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے بی ایچ یو چاپریزہ اس علاقے میں بننے والا پہلا بی ایچ یو تھا ۔اس کے بعد دیگر مقامات پر بننے والے بی ایچ یوز اپ گریڈ ہوچکے ہیں ،لیکن اس بی ایچ یو کی اپ گریڈیشن تو دور کی بات ہے کئی سالوں کی اس کی مینٹننس کا تکلف بھی چھوڑ دیا گیا ہے
جس طرح اس بی ایچ یو کی عمارت ہے وہی حال اس میں موجود بنیادی ضروری طبی آلات ،دوائوں اور ڈاکٹرز کی دستیابی کا بھی ہے جن کی عدم دستیابی کے باعث زیادہ تر مریض یا تو پرائیویٹ ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہیں یا غریب اور لاچار لوگ بغیر علاج اور دوائوں کے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں
80 کی دہائی میں بننے والی طبی سہولت بدتر حالت میں
جہاں ڈاکٹرز اپنی مرضی سے آئیں اور جہاں وہاں کسی سیکورٹی گارڈ کی موجودگی کا سوال ہی بے معنی ہے جو کہ موجودہ حالات میں کسی حادثہ کا سبب بن سکتا ہے جبکہ سیکورٹی نہ ہونے کی وجہ سے موجود عملہ بھی عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے
اگر اینٹ اور ہتھر کے ڈھیر کو ہسپتال کا نام دیا جائے تو ٹھیک ہے ورنہ مذکورہ بی ایچ یو کسی صورت ہسپتال کی تعریف پر پورا نہیں اترتا کیوں کہ جہاں مریض کو دوا اور ڈاکٹر نہ ملے ،ڈاکٹر کو سہولت نہ ملے اور عملے کو سیکورٹی میسر نہ ہو وہاں پینے کا صاف پانی ملنا تھوڑا مشکل کام ہے ۔
80 کی دہائی میں قائم ہونے والا بی ایچ یو پاکستان کی تقریباً تمام پارٹیوں کا دور حکومت دیکھ چکا ہے ،اس کے نام پر کئی لوگوں کو سیاست کرتے اور سیاست سے اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے اور مال دولت سمیٹ کر واپس آتے دیکھنے والے بی ایچ یو کی حالت ویسی کی ویسی بلکہ پہلے سے بدتر ہورہی ہے
اگرچہ حال ہی میں صوبائی وزیر خزانہ و صحت تیمورجھگڑا نے پشاور کے 44 بی ایچ یوز کو اپ گریڈ کرنے کی نوید تو ضرور سنائی ہے لیکن نہیں معلوم کہ ان میں بی ایچ یو چارپریزہ بھی شامل ہے کہ نہیں ۔جو اپنے قیام کے وقت 20 ہزار کی آبادی کیلئے بنایا گیا تھا لیکن اس کے اردگرد اب ووٹروں کی تعداد لاکھوں کو پہنچ چکی ہے