چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک امریکی اخبار میں شائع ہونے والے مضمون میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر اٹھتی آوازوں،افغان صورتحال میں کردار اور دہشت گردی کےخلاف جنگ کے دوران پیدا ہونے والے حالات اور ملک کو درپیش صورتحال کے بارے میں دنیا کو مدلل انداز میں آگاہ کیا ہے ۔امریکی اخبار میں شائع ہونے والے مضمون کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے
حال ہی میں افغانستان کے معاملے میں بہت سی آرا دیکھنے میں آئیں ،لیکن مجھے حیرت ہوئی جب کسی نے دو عشروں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم اتحادی پاکستان کی قربانیوں کا کا ذکر تک نہ کیا اور الٹا اسے امریکی نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا
یہاں میں سادہ الفاظ میں وضاحت کرتا چلوں ،2001 سے ہی میں متعدد بار کہتا آرہا کہ افغان تاریخ کے تناظر میں وہاں جنگ میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔کیوں کہ افغان کسی غیرملکی فوج کی اپنی ملک میں موجودگی کبھی تسلیم نہیں کریں گے ۔
اور اس حقیقت کو پاکستان سمیت کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا ۔
بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد ہر آنے والی پاکستانی حکومت نے امریکہ کی خوشنودی کیلئے اس غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں جسے عالمی برادری اور خود اپنے ملک کے اندرآئینی حیثیت کے حصول کے خواہشمند فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے شروع کیا تھا ۔جس نے نائن الیون کے بعد ہر امریکی خواہش کو پورا کیا اور جس کا پاکستان اور امریکہ دونوں کو بدترین نقصان ہوا
ان میں ان گروپوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی شامل تھا جنہیں 80 کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے کیلئے تربیت اور اسلحہ فراہم کیا۔جنہیں اس وقت ایک مقدس مقصد کیلئے لڑنے والے عظیم مجاہد قرار دیا گیا اور جن کی امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہائوس میں میزبانی کی
یہ بھی پڑھیں
- امریکہ افغانستان میںاپنی فوجی ناکامی کوچھپانے کیلئے پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے ،عمران خان
- 20 سال تک افغان جنگ نہ جیتنے والا امریکہ پاکستان سے افغانستان پر کیسے قابو پائے گا ،عمران خان
- عمران بنام نریندرا مودی ،وزیر اعظم نے خط میں کیا لکھا؟
- عمران خان،موجودہ حالات میں بھارت سے تعلقات کشمیریوں سے غداری ہوگی
لیکن جب سوویت یونین کو شکست ہوگئی تو امریکہ نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا اور 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رکھنے والے میرے ملک پر پابندیاں لگا دیں اور افغانستان بدترین اور خونریز خانہ جنگی کے بیچ چھوڑیا گیا
طاقت کے اس خلاء میں طالبان کا ظہور ہوا جن میں زیادہ تر پاکستان کے افغان مہاجرین کیمپ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے یہیں تعلیم حاصل کی تھی ۔
9/11 کے فوراً بعد امریکہ کو ایک بار پھر ہماری ضرورت محسوس ہوئی ،لیکن اس بار ان کے خلاف لڑنا تھا جنہیں کبھی ہم نے غیرملکی قابضین سے لڑنے کیلئے مل کر تیار کیا تھا

مشرف نے واشنگٹن کو ہر قسم کا زمینی اور فضائی سہولت فراہم کی ۔سی آئی اے کو پاکستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع دیا ۔حتیٰ پاکستانی علاقوں پر ہونے والے ڈرون حملوں سے بھی چشم پوشی اختیار کی
پہلی بار پاکستانی فوج ان نیم خودمختار قبائلی علاقوں میں داخل ہوئی جو کبھی افغان جہاد کے دوران مجاہدین کیلئے مستقر کی حیثیت رکھتے تھے ۔
آزاد منش قبائل کے طالبان اور دیگر اسلام پسند مذہبی تنظیموں کیساتھ مضبوط تعلقات تھے ان لوگوں کے نزدیک امریکہ بھی سوویت یونین کی طرح کا جارح اور غاصب تھا اور اسی طرح کے سلوک کا مستحق تھا ۔
تاریخ میں پہلی بار ایک اتحادی نے دوسرے اتحادی کی سرزمین پر حملے کئے ،وزیراعظم
جبکہ ان کے نزدیک پاکستان اب امریکہ کا معاون اور مددگار تھا ۔جس کے نتیجے میں ہمیں بھی قصوروار سمجھا گیا اور ہم پر بھی حملے کئے گئے ۔لیکن ان سب سے بڑھ کرہماری سرزمین پر 450 سے زائد امریکی ڈرون
نے حالات کو مزید ابتر کردیا ۔اور یہ بھی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا جہاں ایک اتحادی نے دوسرے اتحادی کی سرزمین پر حملے کیے
لیکن ان حملوں کے نتیجے میں زیادہ تر بے گناہ شہری مارے گئے جس کے نتیجے میں امریکہ مخالف اور پاک فوج کے خلاف جذبات میں مزید اضافہ ہوا 2006 سے 2016کے درمیان تقریبا 50 مسلح گروہوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور اس عرصہ کے دوران 16 ہزار سے زائد دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں 80 ہزار سے زائد افراد مارے گئے جبکہ 150 ارب ڈالر سے زائد معاشی نقصان ہوا ۔
اس تصادم کے نتیجے میں 35 لاکھ لوگوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ۔ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشت گرد سرحد پار کرکے افغانستان میں چلے گئے ۔جنہیں وہاں بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں نے مدد فراہم کی اور انہیں دوبارہ ہم پر حملے کرنے کیلئے استعمال کیا گیا پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا تھی ۔جیسا کہ 2009 میں کابل میں تعینات سی آئی اے سٹیشن چیف نے لکھا
پاکستان امریکہ کی جانب سے افغان جنگ میں ڈومور کے شدید دبائو تلے دبا ہوا تھا
اس سے ایک سال قبل 2008 میں میں نے اس وقت کے سینیٹر جوبائیڈن ،جان ایف کیری ،ہیری ریڈ اور چند دیگر سے ملاقات کے دوران افغانستان میں لاحاصل فوجی مہم جوئی اور اس کے خطرناک پہلوئوں کے حوالے سے آگاہ کیا تھا ۔

ان تمام حقائق کے باوجود 9/11 کے بعد عرصہ کے دوران بھی اسلام آباد میں سیاسی مفاد پرستی کا دور رہا ۔ملک کی صدارت پر فائز رہنے والے آصف علی زرداری جو کہ بلاشبہ سب سے کرپٹ ترین آدمی تھے نے امریکیوں کو پاکستان کے اندر حملے جاری رکھنے کا کہا ،اور کہا بلا تخصیص تباہی خود امریکیوں کیلئے نقصان دہ ہے ان کیلئے نہیں ۔ ہمارے اگلے وزیر اعظم نواز شریف کا حال بھی ان سے مختلف نہ تھا
2016 تک پاکستان دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا تھا ۔لیکن اس دوران افغانستان کی صورتحال بگڑنا شروع ہوچکی تھی ۔کیوں کہ پاکستان کے پاس ایک منظم فوج اور خفیہ ادارے تھے جنہیں عوام میں پذیرائی حاصل تھی ۔جبکہ افغانستان کا معاملہ اس کے برعکس تھا جہاں غیرملکی آشیرواد سے قائم نااہل اور کرپٹ حکومت کو افغانستان کے بالخصوص غیر شہری علاقوں میں کوئی وقعت حاصل نہ تھا
بدقستمی سے حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے افغان اور مغربی حکومتوں نے پاکستان کو موردالزام ٹھہرا کرقربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی ۔پاکستان پر طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے اورانہیں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے کا الزام لگایا گیا ۔اگر ایسا ہوا ہوتا تو امریکہ اپنے ساڑھے چار سو زائد ڈرون حملوں میں انہیں نشانہ نہ بناتا
کابل انتظامیہ نے ہر قابل عمل تجویز کو ٹھکرادیا
اس سب کے باوجود کابل انتظامیہ کی تشفی کیلئے پاکستان نے کئی تجاویز پیش کی جس میں سرحدوں پر بائیو میٹرک نظام کی تنصیب ،سرحدوں پر باڑ لگا(جو کہ ہم نے اپنی طرف زیادہ تر لگا لی ہے )شامل تھے ۔لیکن ان پر عمل کرنے کے بجائے کابل حکومت نے پاکستان مخالف بیانیہ تیز کردیا جسے بھارت کے دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے جعلی نیوز نیٹ ورکس کی بھرپور مدد حاصل تھی
طالبان کے ساتھ بروقت اور مفید مذاکرات کے ذریعے اشرف غنی حکومت اور افغان فوج کی کو پیش آنے والی شرمندگی سے بچا جاسکتا تھا کیوں کہ اس کا پاکستان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جاسکتا کہ کیسے 3 لاکھ سے زائد جدید ہتھیاروں سے مسلح افغان فوج چند ہزار طالبان سے نہ لڑسکی ۔لیکن اصل مسئلہ یہ تھا افغان حکومت کی عام افغان شہریوں کے نزدیک کوئی وقعت و اہمیت نہ تھی
آج افغانستان ایک بار پھر ایک دوراہے پر کھڑا ہے ،ہمیں ملک کو ایک بار پھر خانہ جنگی سے بچنے کیلئے ماضی کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کے کھیل سے نکلنا ہوگا

میرے خیال میں دنیا کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور استحکام کیلئے نئی افغان حکومت کا ساتھ دے ۔عالمی برادری افغانستان میں تمام طبقات پر مشتمل نمائندہ حکومت،انسانی حقوق کا تحفظ اور ملک کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت کی خواہاں ہوگی تو طالبان قیادت کی جانب سے بھی ملکی ترقی میں تعاون کیلئے اپنے وعدے پورے نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے اس طرح کے اقدامات سے دنیا کو طالبان کو اپنے وعدوں پر قائم رکھنے کیلئے بھی آسانی ہوگی
اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ دوحہ امن عمل کے مقآصد کو بھی پورا کریگا ،جس کے تحت ایک ایسے افغانستان کا قیام جو دنیا کیلئے خطرہ نہ بنے ،جہاں عام افغان چالیس سال کے جنگ وجدل کے بعد امن و سکون سے رہ سکے ۔
لیکن اگر ہم نے ایک بار پھر 90 کی طرح افغانستان کو تنہا چھوڑدیا تو ایک بار پھر یہ ملک بدامنی ،ہجرت اور افراتفری کا شکار ہوجائے گا ۔جہاں سے ایک بار پھر عالمی دہشت گردی جنم لے سکتی ہے جس سے بچنا پوری دنیا کی ذمہ داری ہے