سلیم مغل

پروفیسر ابلاغ عامہ وفاقی اردو یونی ورسٹی

مجھے یقین ہے کہ افتخار عارف صاحب نے یہ شعر امریکیوں کے افغانستان سے انخلاء کی خبر سننے کے بعد ہی کہا ہوگا۔

تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہوگا

بعید نہیں کہ یہ دوسرا شعر بھی انہوں نے دوحہ مذاکرات کے اختتام پر ہی کہا ہو۔

میں نے ایک اور بھی محفل میں انہیں دیکھا ہے
یہ جو سب تیرے نظر آتے ہیں، یہ سب تیرے نہیں

اب تک ذہن ماؤف، عقل حیران اور آنکھ ششدر ہے کہ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوگیا؟

دیکھتے ہی دیکھتے گوروں نے بساط لپیٹی اور چل دئیے۔ اتحادیوں نے بھی پوری سعادت مندی سے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ طالبان پل جھپکتے افغانستان کے طول و عرض میں پھیل گئے۔”افغانستان طالبان نے فتح کرلیا“
ہمارے بعض دوست تو اسے فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی فتح قرار دے رہے ہیں۔

ہائے بے چارے!!

افغانستان میں طالبان کی سرخروئی کی خبر کے ساتھ ہی ہمارے شاگرد عزیز برادر مصطفی حبیب صدیقی نے ہمیں دنیا اخبار کے فورم پر مدعو کرلیا۔ جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی، معروف قلم کار اور تجزیہ نگار فاروق عادل، محمد علی جناح یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر احمد شیخ اور مشہور صحافی و شاعر علاؤ الدین خانزادہ بھی اس فورم کا حصہ تھے۔


یہ بھی پڑھیں


سب ہی شرکاء نے افغانستان کی نئی صورت حال پہ بہترین تجزیہ پیش کیا۔ اپنے اندیشوں کا اظہارکیا اور ڈوبتی ابھرتی امیدوں کے حوالے سے بہت مثبت گفتگو کی۔

میرا مؤقف بہت واضح تھا کہ ”نہ یہ فتح مبین ہے نہ ہی نصرت عظیم“، یہ کئی سالوں سے دوحہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات کا طے شدہ نتیجہ تھا۔ اس پورے منظر نامے کا ایک ایک منظر پہلے سے طے شدہ تھا۔

عقل تسلیم نہیں کرتی کہ امریکا جیسا زیرک دشمن، اچانک بلی بن جائے اور کہے کہ ”مولانا ہمیں ہماری غلطیوں پر معاف کردو، جو ہوگیا سو ہوگیا، بس آئندہ ہم سے ایسی غلطی نہیں ہوگی…. پلیز ہمیں عزت اور احترام سے واپس جانے دو۔“

میں نے بے نظیر بھٹو کے اس بیان کی طرف بھی توجہ دلائی جو انہوں نے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد دیا تھا۔ بہ قول ان کے ”طالبان کو ہم نے نہیں،برطانیہ نے بنایا ہے۔“ میرا کہنا یہ بھی تھا کہ گورا صاحب جہاں سے بھی جاتا ہے وہاں کی کھیتی میں مسائل اور فتنوں کے بیج ضرور ڈال کر جاتا ہے۔

گورا برطانیہ کا ہو یا امریکا کا گورا اندر سے ایک اور نظر نہ آنے والے ایک ہی خفیہ نظام سے بندھا ہوا ہے۔ یہ ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا تنازعہ چھوڑ کر گیا جسے ہم پون صدی گزرنے کے بعد بھی حل نہیں کرپائے۔

لاکھوں لوگوں نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی جانیں گنوائیں مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ گورا صاحب چین سے بھاگا تو پوری چینی قوم کو افیون کی لت لگا کر گیا۔ وہ تو اگر ماؤزے تنگ نے جنگ افیون کے زریعہ افیمچیوں کا قلع قمع نہ کیا ہوتا تو آج چین ابھرتی ہوئی قوت کبھی نہ ہوتا۔

خدا خیر کرے.. .. اس خطے میں کیا ہونے والا ہے؟

البتہ طالبان اپنے ساتھ کچھ مثبت پہلو بھی رکھتے ہیں۔ان کا غیر معمولی نیٹ ورک، بہترین قوت نافذہ، سادگی، قناعت اور خوف خدا…. خدا کرے ان خوبیوں کی بہ دولت وہ کچھ ایسا کرجائیں جس سے نئے امکانات پیدا ہوسکیں۔

ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ 98فی صد سے زیادہ طالبان یہ جدوجہد اللہ کی رضا کے لئے کررہے ہیں اور میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں مگر میں یہ کیسے مان لوں کہ انہی میں کچھ مہرے اور کچھ پیشگی لکھے ہوئے اسکرپٹ پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے۔ خدا کرے میرا گمان سو بار غلط ثابت ہو مگر میں اس تبدیلی کو پاکستان کے حق میں نہیں دیکھ رہا۔

مشرف عہد میں ہم نے ان پر کیا کیا ظلم روا نہ رکھے۔ملا عبدالسلام ضعیف پاکستان میں افغانستان کے سفیر تھے، عالمی قوانین متقاضی تھے کہ ہم ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتے مگر ہم نے نہایت بے شرمی کے ساتھ انہیں امریکا کے حوالے کردیا۔

ملا غنی کو ہم نے 5سال تک قید و بند کی صعوبتوں سے گذارا۔ ہم نے امریکا کو اڈے فراہم کیے کہ وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں۔ ہم نے اپنی سرزمین سے ڈرون اڑانے اور ڈرون سے حملے کرنے کی اجازت دی۔

صرف ہماری غلطیوں سے افغانیوں کے کتنے قبرستان آباد ہوگئے، ہزاروں لوگ آج بھی معذوری کی زندگی گذار رہے ہیں۔ کیا طالبان اس حسن سلوک کو آسانی سے بھلا دیں گے؟

طالبان کے حوالے سے میرا ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ وہ جدید علوم سے ناواقف ہیں، ان کے پاس پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لئے پروفیشنلز کی کمی بلکہ قحط ہے۔ طالبان کا ورلڈ exposureبھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

گورا برطانیہ کا ہو یا امریکا کا گورا اندر سے ایک اور نظر نہ آنے والے ایک ہی خفیہ نظام سے بندھا ہوا ہے۔ یہ ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا تنازعہ چھوڑ کر گیا جسے ہم پون صدی گزرنے کے بعد بھی حل نہیں کرپائے۔

طالبان قائدین میں سے اکثر نے پاکستان، افغانستان اور دوحہ کے سوا شائد ہی کوئی ملک دیکھا ہو۔ ایسے میں دنیا کے ساتھ چلنے اور اپنی مملکت کو مستحکم کرنے کا خواب کیسے پورا ہوگا؟

البتہ طالبان اپنے ساتھ کچھ مثبت پہلو بھی رکھتے ہیں۔ان کا غیر معمولی نیٹ ورک، بہترین قوت نافذہ، سادگی، قناعت اور خوف خدا…. خدا کرے ان خوبیوں کی بہ دولت وہ کچھ ایسا کرجائیں جس سے نئے امکانات پیدا ہوسکیں۔

یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہے، اس کا دوسرا اور تشویش ناک پہلو سی پیک سمیت چین کے راستے روکنا، پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور جانے کیسے کسیے نشان سوال ہیں جو مجھے ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ خدا کرے یہ گمان، قیاس اور وسوسے غلط ثابت ہوں۔

خدا کرے طالبان پائیدار امن کی راہ پر چل نکلیں کہ یہی راستہ عافیت کا راستہ ہے۔