دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

 خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی،کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے

زمرہ دوم ، موضوع :  قائد اعظم کا تصور قومی زبان

حفصہ خان

اردو کو نافذ کرنا مسٹر جناح کےدل کی بجائے دماغ کا فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔قیام پاکستان سے قبل اور بعد ہمیشہ آپ اردو کے نفاذکے لیے سرگرم نظر آئے۔ ابتداً آپ گجراتی اور آخیر عمر تک انگریزی کے ساتھ جڑے رہے ۔ اردو کے جملے آپ نے خال خال مواقع پرہی ادا کیے۔ اس دوررس اور مدبرانہ فیصلہ کی بدولت آج یہ باور ہورہا ہے کہ اردو رابطہ کی زبان ہے۔ پانچوں صوبوں کی زنجیر ہے۔ تاریخ کے دوراہے پہ کھڑا میں آج کا طالب علم اور بچہ اور کل کا معمار یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آخر اردو کو سرکاری زبان بنانے کی ضرورت کیوں آئی؟؟؟

جس کے جواب کے لیے قائد نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور فکری یک جہتی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔اردو کو بطور قومی زبان تسلیم کرنا ہماری قومی ضرورت ہے۔آزاد قوم کے صاحبان علم و عرفان ہمہ دم اپنی زبان کی ترویج واشاعت اور بدیسی زبانوں کے اعلیٰ پائے کے کام کو اپنی زبان میں ڈھالتے رہتے ہیں۔

قیام پاکستان سےلے کر یہ سطور تحریر کرتے وقت تک اردو کی سرپرستی حکومتی سطح پر شاذونادر ہی کی گئی۔ ڈاکٹر سلیم اختر اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں:
” لسانی تحقیقات کی بناء پر اردو کے متعلق جو قابل قدر مواد جمع ہوا، اس میں اردو بدلتے ناموں کے بارے میں معلومات دقیع ہی نہیں دلچسپ بھی ہیں اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ

داغؔ نے جس اردو پر ناز کیا تھا وہ ہمیشہ ” اردو” نہ تھی چنانچہ حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر سینتی چیٹر جی تک لسانی محققین کی اکثریت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ہندوستان کی نسبت اسے ” ہندی” یا ” ہندوی ” کہا جاتا رہا ہے۔ “

1
کیا اُردو کو عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور تعلیمی نظام میں مکمل طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ کی مادری زبان اردو ہے یا پھر آپ مِلی سوچ کے حامل ہیں تو جواب مثبت اور اگر آپ کا جھکاؤ قوم پرست اور علاقائی زبانوں کو فروغ و ترویج دینے والے افراد کی طرف ہے تو ضرور بالضرور آپ کا ووٹ اس کی برعکس ہوگا۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو زبان کی فصاحت و بلاغت اور اظہار کی عمدگی کا دیگر کوئی زبان بھی مسابقہ نہیں کر سکتی۔

جس کا اس امر سے اندازہ کیجئے کہ حرمین شریفین میں ہدایات عربی ، انگریزی اور اردو زبان میں تحریر کی گئیں ہیں اور چین و جاپان، انگلستان و ترکی میں باقاعدہ بی ایس ڈگری کا پروگرام عشروں سے شروع کیاجاچکا ہے۔ دنیا بھر میں بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص یہ رائے پختہ ہوتی جارہی ہے کہ اردو اسلام اور مسلمانوں کی زبان ہے کیونکہ رائج مذاہب کے حاملین کے نزدیک مذہب کو عقائد کی بجائے رنگ، جانور اور درختوں سے پہچانا جاتا ہے جیسا کہ کھجور ، اونٹ اور سبز رنگ اسلام جبکہ پیپل، گائے اور زرد رنگ ہندو ازم کی علامت مانا جاتا ہے۔

معروف صحافی عارف وقار رقم طراز ہیں:
“تازہ لسانی تجزیئے کے مطابق ہندی اور اردو کو ایک ہی زبان سمجھا جائے تو دنیا کی تیسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ “

2
سن 1900ء میں برطانوی گورنر نے یوپی میں قرارداد کے ذریعہ اردو کے علاوہ دیونا گری اور ہندی رسم الخط اور زبان کو مسلط کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے ردعمل میں سر سید کے رفیق خاص نواب محسن الملک نے ” اردو ڈیفنس کونسل ” قائم کرکے علامتی احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جو پہلی سیاسی جماعت کے قیام کا سبب بنی۔

یہ بھی پڑھیں

درحقیقت اس سے بھی کافی پہلے 1867- 1868 میں ہونے والے اردو ہندی تنازعہ نے دوقومی نظریہ اور اردو کی ترویج کا سبب بنا۔ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی کیوں کہ اردو ہی برصغیر کی واحد زبان ہے جس میں نہ صرف مذہب ثقافت اور ادب کے حوالہ سے مسلمانان برصغیر کا عظیم علمی سرمایہ محفوظ ہے بلکہ یہ رابطہ کی زبان بھی ہے، اس لیے ضروری ہوگا کہ اسے پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت دی جائے۔

علاقائی بنیادوں پر اردو کی کافی بولیاں پائی جاتی ہیں ( مثلاً راجپوت، میواتی، چوہان، کراچی و دکن میں بولی جانے والے لہجوں میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔)لیکن جرائد و رسائل، خطبات و تدریس اور تصنیف و تالیف میں جو اردو زبان رائج ہے اسے بلا جھجھک جدید اردو کہاجاسکتا ہے کیونکہ قدیم اردو بالکل متروک ہوچکی ہے۔

ابتدائی طور پر ہر ذی شعور کو ایک نہ ایک زبان پہ اچھی طرح عبور حاصل ہونا چاہیے اور وہ اس کی مادری زبان ہونی چاہیے۔ یہ بات جدید تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں باآسانی اور بہت جلد متفرق علوم سیکھ سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان پر بھی مہارت ہونی چاہیے بیشک وہ زبان قومی پیمانہ کی ہو یا پھر عالم گیر سطح کی۔

اردو زبان اپنی لطافت، انداز گفتگو اور خمیر کی وجہ سے زندہ زبانوں میں شامل ہے۔اس زبان میں اتنی لچک اور تنوع پایا جاتا ہے ہے نئے ذخیرہ الفاظ کو اپنے اندر سمونے کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ گزشتہ چار سو برس سے اردو زبان دیار غیر کی زبانوں کے ذخیرہ الفاظ کو اپنے معنی میں بدل کر قبول کرلیا جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ کائنات میں چہار سو یہ زبان پھیل رہی ہے۔

سوشل میڈیا کے ڈیجیٹل دور میں رومن اردو نے اس زبان کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایم ڈی کیٹ، سی ایس ایس، پی ایم ایس اور بورڈز کے امتحانات میں انگریزی کا نتیجہ دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ انگریزی میں فیل ہونا اور کم زور ہونا ہمار ا محض اکلوتا قومی مسئلہ بن چکا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ معاشرے میں اپنی فیلڈ کےطلائی تمغہ کےحامل ماہر ترین افراد جیسا کہ طبیب، عالم، استاد اور انجینئر تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی اپنے ماتحت و سائلین سے ہم کلام ہونے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتےہیں۔ فرنٹ مین، کسی واسطہ یعنی سہولت کار کی مدد سے بات کرنے کو پسند کرتے اور روزمرہ مستعمل اصطلاحات سے نابلد اور الفاظ کی درست ادائیگی سے قاصر ہوتے ہیں جس کی سب سے بنیادی وجہ عشروں پرانا نصاب اور زبانی مشق کی بجائے نوٹس اور رٹے پہ کام چلایا جا رہا ہے۔

اسی طرح جو لوگ کالجز اور جامعات میں اردو سیکھتے اور پڑھتے ہیں ان کی گرائمر کم زور ہونے کے سبب تحریر و کلام میں ناقص رہ جاتے ہیں۔ جس کی بہتری کے لیے موجودہ حکومت نے مدارس کے وفاق کی تعداد بڑھانے اور نصاب کا ازسر نو جائزہ لینے کے لیےاعلیٰ پائے کہ تعلیمی، مذہبی اور انتظامی ماہرین پہ مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل کا مزدہ سنایا ہے۔

 خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے

فاضل جج جناب فائز عیسٰی  نےحال ہی میں اردو زبان میں فیصلہ تحریر کرکے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم جناب عمران احمد خان نیازی نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں ستمبر میں اردو میں خطاب کرکے اردو کے شان دار مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ آپ نے قومی تقریبات اردو میں کرنے اور قومی لباس کو فوقیت دے کر اپنی مقبولیت کے سبھی ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔

مسٹر فیروز خان اور بنگالی طالب علموں نے اردو کے خلاف علامتی اور اعلانیہ احتجاج کیا تو قائد اعظم نے ان کی پروا کیے بنا اردو کے نفاذ کا حکم صادر کیا اور انہیں دلیل سے رام کرنے کی بھرپور سعی کرتے دکھائی دیے۔جسے آپ نے بارہا 1942ء ، 1946 ء اور 1948 ء میں دہرا کر اپنے مصمم ارادے سے واشگاف انداز میں باور کرادیا۔

اردو کے نفاذ میں پاکستان اور بھارت کے صاحب اقتدار کو جمیعت الاقوام یعنی اقوام متحدہ کو مراسلہ ارسال کرنا چاہیئے کہ تاکہ وہ اپنی دفتری زبانوں میں اردو کو بہر طور شامل کرے۔ کیوں کہ اس کے بولنے والے عربی، فرانسیسی اور ہسپانوی زبان کے بولنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ سندھی، بلوچی، سرائیکی، کشمیری، ہزارہ، پٹھان اور پنجابی آپس میں جڑے رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اردو کا دامن تھامے رکھنا چاہیےجو کہ اتفاق کی علامت ہے۔

حکومت وقت کو سرکاری سطح پر اردو کی پذیرائی کے سیمنارز، جلسے، مسابقاجات اور مصوری کے مقابلہ جات کا انعقاد اور اول، دوم اور سوم آنے والوں کو نقد انعامات دے کر حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ راستہ کے علامتی بورڈز قومی زبان میں تحریر کیے جائیں۔من حیثیت القوم ہم سب کو اردو گفتگو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش بطور فیشن کرنے والوں کی مذمت کرنا چاہیئے۔

بیماریوں کے خلاف احتیاطی تدابیر اردو میں رقم کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کی جدید تحقیق کو قومی زبان میں منتقل کرنے کے لیے تحقیقی مراکز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیئے۔

حوالہ جات

1- سلیم اختر ، ڈاکٹر ، ” اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ آغاز سے 2010 ء تک ” ( سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور) 2018ء ، ص: 38

2- عارف وقار،”زبانوں کی دنیا ” سوموار، 16 اگست 2004ء، بی بی سی اردو ڈاٹ کام لندن

 

5/10
https://youtu.be/C1F4Ycn18cw