زینو
___خ ق تنولی___
زینت جسے ہم زینو کہتے ہیں ، ایک خوبصورت دل و دماغ کا معصوم سا خواجہ سرا ھے۔ یہ ہر دوسرے اتوار کو یعنی مہینے میں دو بار باقاعدگی سے ہمارے گھر کی ڈوربیل بجاتا/بجاتی ہے۔ ہم اس کا خوشدلی سے سواگت کرتے ہیں۔ حسبِ توفیق اس کی مدد بھی کرتے ہیں۔ یعنی روزانہ صدقے کی مَد میں جو رقم پس انداز کی ہوتی ھے ، اسے ولیمے پہ سلامی دینے والے پھولدار لفافے میں رکھ کر پیش کرتے ہیں تاکہ اس کی عزتِ نفس پر خراش نہ پڑے۔ چاۓ یا شربت یا کھانا کھلاۓ بغیر رخصت نہیں کرتے۔ وہ بہت ذہین ہے۔ زمانہ شناس ھے۔ دکھ سکھ کا وسیع تجربہ رکھتا/رکھتی ھے۔ ہم اس کی تمام گفتگو کو مکمل توجہ سے سنتے ہیں اور درمیان میں کبھی نہیں ٹوکتے۔ اتنا زیادہ بول کر اس کی کتھارسس ہو جاتی ھے۔ ہمارا خیال ھے اتنا پرٹوکول اسے صرف ہمارے ہاں ہی ملتا ہے کیونکہ جتنی زیادہ اس کی دعاٸیں ہوتی ہیں ، اتنی شاید ہی کوٸی اور دے سکے۔
آج بھی ہم نے اس کے لیے صحن میں کرسی اور میز رکھی۔ ناشتہ اکٹھے کیا اور بہت سی گفتگو بھی کی۔ جب اسے دروازے تک رخصت کرنے کو بڑھے تو ہم نے پوچھ لیا : ”زینو ! آج ویلنٹاٸن ھے۔“
اس نے پلٹ کر پوچھا : ”یہ کیا ہوتا ھے خان بابا؟“
”اس دن محبت کرنے والے پھول اور تحفوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ تمھیں بھی کبھی کسی پروین یا پرویز نے پھول پیش کیے؟“
جواب میں اس کے وجود نے ایک پھریری سی لی۔ مٹھیاں بھینچیں اور کھولیں۔ سرمہ لگی آنکھوں کے ڈھیلے گھومے۔ بھنویں کِھنچیں۔ اپنےدوپٹے کے ایک کونے کو داٸیں ہاتھ کی چٹکی میں مسلا اور کہا :
”خان بابا ۔۔۔ پھول وہی دیتے ہیں جنھیں دل درکار نہ ہو۔“
خالد قیوم تنولی خطہ شمال کے اردو اور ہندکو ادب کا شناسا چہرہ،جو لطافت و حساسیت سے جذبہ سے لبریز تحاریر کے زریعے معاشرتی پہلوٶں کو اجاگر کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں