دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

حلقہ پی کے 69 خیبر 1: عمل سے خالی دامن امیدوار،ووٹروں کو راغب کرنے میں ناکام

سدھیر احمد آفریدی

آٹھ فوری کے پولنگ ڈے کے موقع پر پی کی 69 خیبر ون میں ووٹرز کو نکالنا چیلنج ہوگا خواتین ماضی کی مشکلات کو یاد رکھتے ہوئے کم تعداد میں نکلیں گی کیونکہ خواتین کو اکثر اپنے پولنگ اسٹیشن کا پتہ نہیں ہوتا گزشتہ عام اور بلدیاتی انتخابات میں خواتین سارا روز پولنگ اسٹیشنز معلوم کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرتی رہیں اور اکثر خواتین پولنگ اسٹیشنز ان کے گھروں سے دور تھے

لنڈی کوتل میں سہولیات کی کمی کے باعث اکثر گھرانے نقل مکانی کر گئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے زیادہ تر بازار ذخہ خیل، خیبر اور شینواری علاقوں سے گھرانے نکلے ہیں تاہم پھر بھی بڑی تعداد بغیر سہولیات اور بنیادی حقوق کے اللہ کے آسرے پر جی رہی ہے لنڈی کوتل سے باہر آباد لوگوں کی وجہ سے بھی ٹرن آوٹ کم رہیگا امیدواروں میں بھی ابھی تک وہ جوش و خروش دکھائی نہیں دیتا اور ایسے لگتا ہے جیسے وہ الیکشن ہوتا ہوا نہیں دیکھتے الیکشن کا ٹیمپو بننے میں ابھی شاید وقت ہے

صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 69 خیبر ون میں ذخہ خیل آفریدی، شینواری، ملاگوری اور شلمانی علاقے شامل ہیں ملاگوری اور لنڈیکوتل تحصیل کے کل ووٹرز میں مرد اور خواتین کی تعداد 2 لاکھ 2ہزار 648 ہے جن میں 1لاکھ 9 ہزار 30 ووٹ مردوں کے ہیں جبکہ 93 ہزار 618 ووٹ خواتین کے ہیں ضلع خیبر pk 69 صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے ابتدائی طور پر 91 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے جائیں گے جن میں 208 پولنگ بوتھ مرد ووٹرز کے لئے ہونگے جبکہ 143 پولنگ بوتھ خواتین ووٹرز کے لئے مختص ہونگے

واضح رہے کہ لنڈی کوتل کے دور آفتادہ علاقہ بازار ذخہ خیل، شینواری اور شلمان میں بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی،بےروزگاری اور دیگر مشکلات اور پریشانیوں کے سبب سینکڑوں خاندان نقل مکانی کرکے پشاور سمیت دیگر بندوبستی اضلاع میں رہائش اختیار کر گئے ہیں جن میں سے بہت ہی کم تعداد میں ووٹرز اور خاص کر خواتین اپنی رائے کا استعمال کرنے کے لئے 8 فروری کو واپس آئیں گے

یہ بھی پڑھیں

  1. پی کے 69:ووٹرز کی گرم جوشی نہ امیدواروں کا جذبہ ،انتخابی نقشہ کیا ہوگا؟
  2. مشتاق غنی نے بھی کاغذات جمع کروا دیئے ،پی ٹی آئی کے تنکے بکھرنے کے بعد اگلا ٹھکانہ ؟؟
  3. ٹی ٹی پی کا معاملہ جلد حل ہوجائیگا ،اسلام آباد اور کابل کے درمیان فاصلے نہ بڑھیں ،گلبدین حکمتیار

جس کی کئی وجوہات ہیں لنڈی کوتل سے باہر پشاور اور دیگر اضلاع میں رہائش پذیر بعض افراد سے جب پوچھا گیا کہ ان کے گھرانوں کے ووٹرز انتخابات کے دن اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے تشریف لائیں گے تو جواب دیا کہ ان کا دماغ خراب ہے کہ وہ وقت، سرمایہ اور توانائی خرچ کرکے بددیانت اور وعدہ خلاف امیدواروں کی خاطر خود اور اپنی خواتین کو سارا دن تکلیف سے گزاریں

انہوں نے کہا کہ ووٹ کا استعمال اگر قومی، آئینی اور قانونی تقاضا ہے تو شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور سہولیات کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے جن سے وہ آج تک محروم رہے ہیں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بہت سارے خاندان لنڈی کوتل سے باہر دور آباد ہیں جن کا ووٹ کے لئے آنا مشکل ہے اور دوسری بات یہ کہ 8 فروری کو شدید سردی بھی ہوگی جبکہ ماضی میں کسی نے میرٹ پر اجتماعی کاموں کو ترجیح نہیں دی ہے اور نہ ہی کوئی بڑے منصوبے دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے مایوس لوگ باہر نہیں آئینگے

اس لئے پولنگ ڈے پر ٹرن آؤٹ بہت کم رہیگا اور ہو سکتا ہے کہ خواتین کے انتہائی کم ٹرن آوٹ کے باعث ری الیکشن کی فضاء بن جائے جو کہ فی الحال قبل ازوقت ہے مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ماضی میں جو لوگ منتخب ہوگئے تھے ان کے پاس کوئی ویژن اور منصوبہ نہیں تھا ماضی کے تمام منتخب نمائندوں نے پی کے 69 خیبر ون میں لوگوں کی مشکلات اور بنیادی ضروریات کے لئے حکومت سے بڑے ترقیاتی اور روزگار کے پروجیکٹس لینے کے لئے کوئی قابل زکر کردار ادا نہیں کیا ہے

یہی وجہ ہے کہ پورا علاقہ کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے بازار ذخہ خیل کے راستے افغانستان سے جو سامان لایا جاتا تھا وہ بھی کئی سالوں سے بند ہے جس کی وجہ سے وہاں کے ہزاروں لوگ بےروزگار ہوگئے ہیں بازار ذخہ خیل کو منتخب نمائندوں نے بلکل نظر انداز کئے رکھا وہاں زندگی کے آثار بمشکل دکھائی دیتے ہیں نہ تو وہاں کوئی انڈسٹری ہے اور نہ کاشت کاری کی سہولیات حالانکہ ہموار زمین وہاں بہت بڑی ہے

بازار ذخہ خیل کے پہاڑ درختوں سے تقریباً صاف ہوگئے ہیں اگر محکمہ جنگلات اور زراعت وہاں پودے ،فصل اور درخت کاشت کرنا شروع کر دیں اور ٹیوب ویل لگا کر سولر سسٹم سے چلائیں تو بازار ذخہ خیل کے علاقے سیاحت کے لئے بہت موزوں ہیں جس سے وہاں کے غریبوں کو روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں

اسی طرح لوئے شلمان کا دور آفتادہ علاقہ دریائے کابل کے کنارے آباد ہونے کے باوجود بھی پانی کی بوند بوند کو ترستا رہا ہے اور وہاں کاشت کاری اور پہاڑوں پر پودے کاشت کرنے کے لئے جتنا کام کرنا چاہئے تھا وہ نہیں ہوسکا ہے حالانکہ لوئے شلمان میں اگر زراعت کی طرف توجہ کی جائے کسانوں کو تربیت اور شعور دیا جائے اور ان کو مختلف فصلوں کے بیچ فراہم کئے جائیں تو اس سے ان کی غربت میں کمی کی جا سکتی ہے

بازار ذخہ خیل اور لوئے شلمان کے علاقے افغان سرحد سے ملے ہوئے ہیں اگر دونوں جگہوں پر امپورٹ ایکسپورٹ کی اجازت دی جائے تو بلاشبہ مقامی لوگوں کی غربت ختم ہو سکتی ہے بیشک کاروباری راستے کھلنے کے لئے حکومت انتظامات کریں،سیکیورٹی کا بندوبست کریں اور وہاں کسٹم عملہ تعینات کریں اور ان دو جگہوں سے ماضی میں کاروبار ہوتا بھی رہا ہے جس سے ہزاروں نوجوان برسر روزگار تھے اسی طرح طورخم میں مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع دینے کی ضرورت ہے

اگر این ایل سی کے ذریعے کسی کا روزگار خراب کیا جائیگا جیسا کہ ہو چکا ہے اور مزدوروں کو بےروزگار کیا جائیگا تو اس سے بےروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا اور اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے لنڈی کوتل بازار ذخہ خیل، لوئے شلمان اور طورخم کو بلاتاخیر سی پیک کا حصہ بنانا چاہئے

تاکہ یہاں آمدورفت کے لئے سڑکیں بنائی جا سکیں اور بارڈر ٹریڈ شروع ہو سکے اگر ریاست لوگوں کو جائز کاروبار کے مواقع نہیں دیگی تو لوگ اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے ناجائز اور غیر قانونی ذرائع آمدن جیسے منشیات وغیرہ کی طرف متوجہ ہونگے اور انتہاء پسندی کی طرف راغب ہونگے

جس کی مثالیں موجود ہیں لنڈی کوتل کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر بارانی ڈیم بنانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے جس سے زیر زمین پانی کی سطح اوپر آئیگی، پانی ذخیرہ ہوگا تو سیلابوں کا خطرہ ٹل جائیگا، زراعت کو ترقی ملے گی اور پہاڑ سرسبز و شاداب ہونگے جس سے سیاحت کی شروعات ہوسکے گی اور سیاحت ہی اچھے اور آسان معاش کی ضمانت ہے لنڈی کوتل میں سیاحت کے لئے بہت زیادہ مواقع اور اچھے پرکشش مقامات موجود ہیں

لیکن یہ سب کام کون کریں ماضی اور حال کے حکمران تو قبائلیوں کی ترقی اور خوشحالی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جبری انضمام کے فوائد اور ثمرات بھی نہیں ملے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ضلع خیبر کے عوام بھی جرآت مند، باصلاحیت، مخلص اور دیانت دار قیادت اور نمائندوں کا ساتھ نہیں دے رہے جو حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے

، عوامی مطالبات منوانے سکے اور علاقے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے بڑے منصوبے اور پروجیکٹس لا سکے ماضی کے نمائندوں کی کرپشن، بددیانتی،اقرباء پروری اور نااہلیت کا یہ زندہ ثبوت ہے کہ پورا سندھ اور پنجاب سی پیک سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن قبائلی علاقے سی پیک سے کوئی پروجیکٹس نہیں لے سکے

ایک مہمند ماربل سٹی ہے اور وہ بھی تاحال ناکامی سے دوچار ہے حکمران خوف خدا سے عاری ہیں ان سے کچھ لینے کے لئے پارلیمنٹ میں ایسے نمائندوں کو بھیجنا ہوگا جو کچھ کرکے دکھائیں اور عوام کی امنگوں کی ترجمانی کر سکے۔