سید عتیق الرحمان

کہانی کے اسرار
ہر کہانی کے اندر بہت سی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں ۔ جوں جوں بڑی کہانی کے اندر سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں نکلتی ہے تو پہلا رد عمل بدلتا چلا جاتا ہے
چند روز قبل جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم نے عیسائیوں کی بستیوں اور گرجوں کو جلا دیا ۔ یہ پہلی اور بڑی کہانی تھی ۔

سب نے بلوائیوں کے خلاف مل کر سخت رد عمل دیا۔ اس کہانی کے پیچھے ایک اور کہانی بھی تھی اور وہ یہ کہ وہاں ایک کاغذ پر قرآن مجید اور مسلمانوں سے متعلق توہین آمیز جملے لکھے کر سر عام پھینکے گئے تھے

جن پر دو عیسائیوں کے نام ، فون نمبر ، شناختی کارڈ نمبر اور تصاویر چسپاں کی گئی تھیں ۔ اب یہ بات سمجھ میں تو آ گئی کہ ہجوم نے حملہ کیوں کیا؟

مگر رد عمل میں معمولی تبدیلی آئی کہ ایسے لوگوں کو تو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیئے جن کی وجہ سے فساد ہوا ۔ مگر باقی لوگوں کا کیا قصور ، گرجے کیوں جلائے گئے ۔ عیسائیوں کو بستی سے کیوں نکالا گیا ان کی املاک کیوں جلائی گئیں؟

یہ بھی پڑھیں

مگر ٹھہریئے !

یہاں انہیں بھی ساتھ شامل رکھیئے جنہوں نے چرچ اور بائیبل وغیرہ سمیت مسیحیوں کے گھر جلائے۔ ان سب کو چھوڑ کر یہ کہہ دینا کہ جس نے پہلی توہین کی صرف اسے سزا ملنی چاہیئے ٹھیک نہیں ۔ توہین صرف مسلمانوں کے مقدسات کی نہیں ہوتی ۔ ہر مذہب کے مقدسات کی ہوتی ہے ۔
مندروں میں مورتیاں توڑنے کو ثواب ماننے والوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ مذہب کا درجہ اپنے ماننے والوں کی نظر میں ہمیشہ مقدس ہی ہوتا ہے ۔ مذہب خواہ جو بھی ہو۔

خیر اس سے بھی پچھلی کہانی کی طرف چلتے ہیں
وقوعہ سے پہلے دو عیسائیوں کا آپس میں جھگڑا ہوتا ہے ۔ ایک عیسائی نے دوسرے عیسائیوں کو مروانے کے لیئے ان کا نام پتہ لکھ کر توہین آمیز کلمات لکھے اور اس کاغذ پر مخالف کے فوٹو چسپاں کر کے مسلمانوں کے راستے میں پھینک دیا ۔ جسے بعد میں سی سی ٹی وی فوٹیج سے پکڑ لیا گیا۔
اب سمجھ آئی کہ عیسائیوں کو اس حال تک پہنچانے کے اصل ذمہ دار خود انہی کی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر نہیں رکیئے

اس سب کے باوجود وہ لوگ بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں جنہوں نے ان بستیوں اور گرجوں کو جلایا ۔ مذہب اور انسان کا تو رشتہ ہی تقدسات پر منحصر ہے۔ آپ بائیبل جلائیں یا وید یا قرآن ۔ ہر ایک کا جلانا اپنے ماننے والوں کے لیئے توہین مذہب ہی ہوتا ہے۔
مگر آپ کو تو یہ پڑھایا گیا ہے کہ سومنات کے مندر آپ کے اجداد نے توڑے تھے ۔ اگرچہ بعد میں بابری مسجد کو توڑ کر سومنات کے مندر کا متبادل بننا کیوں نہ پڑے


یہ تو اس ایک کہانی سے پچھلی کہانیاں تھیں ۔ مگر دنیا تک صرف ایک کہانی پہنچی ۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں نے عیسائیوں پر حملہ کر کے ان کی بستیاں اور چرچ جلا دیئے۔ بائبل اور عیسائیوں کا دیگر مذہبی لٹریچر جلانے کے خلاف عیسائی دنیا نے وہ رد عمل نہیں دیا جو ہمارے ہاں عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔
اب آگلی کہانیاں دیکھیں ۔ مسلمان جو اس حملے کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنا امیج خراب کیئے بیٹھے ہیں اس سے اگلی کہانیوں میں کیسے دکھائی دیئےفسادات کے بعد جب گرد تھمی ۔

دھول چھٹتے ہی معلوم ہوا کہ مقامی مسلمانوں نے عیسائیوں کو حملہ آوروں سے بچنے کے لیئے پناہ دی ۔ اپنے گھروں میں انہیں چھپایا۔ حملہ آور مقامی نہیں باہر سے آنے والے نامعلوم لوگ تھے ۔
مقامی مسلمانوں کی وجہ سے وہاں کی عیسائی آبادی زندہ بچی ورنہ بلوائی انہیں مارنے ہی آئے تھے ۔
کمال ہے یہ وہی مسلمان ہیں جو عالمی سطح پر بدنامی کا کلنک ماتھے پر لگوائے بیٹھے ہیں

کہ یہ مسلمان اقلیتوں پر حملے کر کے ان کی بستیاں جلانے اور گھر بار لوٹنے والے ہیں ۔ جن کی نظر میں صرف ایک ان کا اپنا مذہب مقدس ہے باقی کچھ نہیں ۔
ایک کہانی یہ بھی سامنے آئی کہ بستی چھوڑ کر بھاگنے والوں کے جو گھر لوٹے گئے ان کی تلافی مسلمان کمیونٹی کے صاحب ثروت لوگ کریں گے۔ ایک بچی کے جہیز کا سامان بھی جلا دیا گیا تھا ۔ ایک مسلمان نے اپنی شناخت چھپا کر اس بچی کے جہیز کا سامان اپنی طرف سے اسے دینے کا اعلان کیا ۔
علامہ طاہر اشرفی جو پاکستان میں سرکاری مسلمانوں کے سب سے بڑے نمائندہ ہیں انہوں نے پورے خشوع وخضوع سے عیسائیوں سے معافی مانگی ۔ حالانکہ ایسی معافی قبلہ نے کبھی اپنے ذاتی گناہ کی بھی نہ مانگی ہو گی ۔ بہر حال پر سنجیدہ اور رنجیدہ انسان نے اپنے اپنے انداز سے عیسائی برادری کے سامنے ندامت اور شرمندگی کا اظہار کیا۔
مگر دنیا نے صرف یہی دیکھنا ہے کہ یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے ایک اقلیت پر حملہ کر کے اس کی اہانت کی۔ عبادت گاہیں جلائیں۔ یہ چرچ کو آگ لگانے والے مسلمان ہیں جنہوں نے صلیب توڑی اور بائبل کی توہین کی ۔
ایک مسلمان اپنے مسیحی پڑوسی کے گھر کے باہر جائے نماز بچھا کر نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تا کہ اس کا گھر حملہ آوروں سے بچایا جا سکے ۔

حملہ آوروں نے اس گھر کو مسلمانوں کا گھر سمجھ کر نذر آتش نہیں کیا ورنہ وہ لوگ جل کر مر جاتے ۔مقامی مسلمانوں نے ہر ممکن طریقے سے عیسائیوں کو حملہ آوروں سے بچانے کی کوشش کی یہی وجہ ہے کہ اس سانحے میں انسانی جانوں کا نقصان نہیں ہو پایا


اب ایک اور کہانی کے مطابق مقامی مسجد اہل حدیث میں عیسائیوں کو عبادت کی پیشکش بھی سامنے آئی ہے ۔ چرچ جلنے کے بعد عیسائیوں کے لیئے اہل حدیثوں نے اپنی مسجد کھول دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ آپ اپنی عبادت کے لیئے ہماری مسجد میں آئیں ۔
یہ ہمارے لیئے نہایت خوشی اور مسرت کی بات ہے کہ اہل حدیث حضرات نے کرسچئیین کمیونٹی کے لیئے اتنی وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا ۔
خیر عیسائیوں نے وہاں کب جانا ہے ، وہاں تو بریلوی بھی نہیں جاتے عیسائی تو دور کی بات ہے مگر یہ پیشکش نہایت دور اندیش اور روادار طبیعت اہل حدیثوں کا چہرہ ہمارے سامنے لاتی ہے ۔ جنہیں بریلوی وہابی اور گستاخ کہتے ہیں اور ہم انہیں یزیدی کہتے ہیں ۔ اس موقع کی مناسبت سے ہم سب کو ان سے یہ کہنا چاہیئے کہ حضور اتنی رواداری شیعوں اور بریلویوں کے لیئے بھی دکھا دیا کریں ۔
موحد اگر تثلیث برداشت کر سکتا ہے تو ثنویت کیوں نہیں بہر حال ابھی اس واقعے سے جڑی کئی کہانیاں منظر عام پر آنا باقی ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر کہانی بہت تہہ دار ہوتی ہے اور ان میں سے جو کہانی سب سے زیادہ پھیلتی ہے وہ غلط ہوتی ہے ۔ صحیح کہانیاں اس غلط کہانی کے نیچے دب جاتی ہیں۔
آپ ان سارے عیسائیوں کو مستقل داتا دربار شفٹ کر کے تا عمر ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام بھی کر لیں
دنیا یہی کہے گی کہ یہ مسلمان ہوتے ہی ایسے ہیں جو اقلیتیوں پر حملے کر کے ان کی جان مال اور عزت و آبرو لوٹ لیتے ہیں۔ جو چرچ ، صلیب اور بائبل کی توہین کر کے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے قرآن کی توہین نہ کی جائے
کیا مسلمان واقعی ایسے ہوتے ہیں ۔؟
یہ سمجھنے کے لیئے کہانی کے اندر موجود باقی کہانیوں کو بھی پڑھنا پڑتا ہے ۔ مگر اتنا وقت ہے کس پاس ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے