صفدرحسین
معلوم نہیں افغانستان کو سلطنتوں کے قبرستان کا لقب کس نے اور کب دیا ؟ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ماضی بعید میں کتنے طالع آزما اس سرزمین پر آئے اور یہیں پیوندخاک ہو کر رہ گئے ،البتہ ہمیں ایک اس نسل کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ضرور ملا جنہوں نے اپنے سےپہلے بزرگوں سے تاج برطانیہ کی شان و شوکت کو خاک افغان میں رلتے دیکھا یا اس کے سمعی یا بصری شاہد ضرور تھے ۔اس طرح یہ قصہ ہم تک ایک دو نسلوں کے توسط سے ہم تک پہنچ گیا ۔
البتہ اگر یہ کہا جائے کہ ہم وہ خوش نصیب یا بدنصیب نسل میں ضرور شامل ہیں( خوش نصیب اس لحاظ سے کہ ہم ماضی کے قصوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے اور عروج و زوال کی تاریخ کو ورق در ورق الٹتے دیکھا ۔ لیکن بدنصیب اس لحاظ سے کہ طاقت و جبر کے اس کھیل میں ہزاروں غنچے و کلیاں ملیا میٹ ہوتی دیکھیں ،لاکھوں خواب اجڑتے اور بستیاں تنکوں کی مانند بکھرتی دیکھیں )جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دو عظیم سلطنتوں کے طاقت و وحشت کے بپھرے دیو کو اپنے ہی غرور میں ملیا میٹ ہوتے اور خاک میں لوٹ پوٹ ہوتے دیکھا
20 سال قبل کسی کو اندازہ نہ تھا کہ 20 سال بعد کیا تماشہ دیکھنے کو ملے گا
30 اگست 2021 کا دن بھی تاریخ عالم کا ایک اور سنگ میل رہا جب 20 سال قبل سات سمندر پار سے آنے والے عفریت کو دنیانے خاسر و ناکام رات کی تاریکی میں فرار ہوتے دیکھا ۔بیس سال قبل جب امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے افغانستان جیسے ناتواں اور بے بس ملک پر چڑھائی کی تو اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ محض 20 سال بعد کیا تماشا دیکھنے کو ملے گا
یہ بھی پڑھیں
- 26،27 فروری کی جنگ جو ہم نے میڈیا پر دیکھی
- گولی استاد
- تصویریں بنا کر مسکراہٹیںلوٹانے والے پاکستانی فوٹو گرافرسے ملئے …
- کیلاش تہذیب کو زندہ رکھنے والے رحمت ولی کون ہیں؟
اور پھر 15 اگست سے شروع ہونے والے تماشے نے دنیا کو وہ وہ رنگ دکھائے کہ حلیف حریف سب دانتوں میں انگلیاں دابے ششدر و پریشاں دیکھتے رہ گئے،اور وہ جواگلے چھ اور نو ماہ کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے انہیں رات کی تاریکی میں یوں سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا کہ ان کے پائوں جوتی اور تن حرمت کے لباس سے محروم ہوچکے تھے جس پر طاقتوروں پر ان کا تکیہ تھاانہوں نے ایسی ہوا دی کہ پھر سرزمین افغان پر کہیں پائوں ٹکانے کو جا نہ ملی
وقت کا اصول ہے کہ وقت کسی کا نہیں ہوتا ،بالکل ایسا ہی امریکیوں کے ساتھ بھی ہوا جب ان پر برا وقت آیا تو اپنے پرائے ہر ایک نے اپنی اوقات سے بڑھ کر چاچاسام کر پذیرائی کی ۔اگرچہ کابل سے امریکی فوج کے انخلاء کی آخری تاریخ 31 اگست تھی لیکن انہوں نے 30 اگست کو ہی باعزت طریقے سے افغانستان چھوڑنے کو ترجیح دی
اسی عجلت کے نتیجے میں چند ہزار امریکی فوجیوں کی عارضی طور پر مہمان نوازی کا موقع اسلام آباد کوبھی مل گیا ۔اب 20 سالہ افغان قصے میں پاکستان کا کردار عملی طور پر وہی رہا یعنی کہ ان کی حکومتوں کی تلواریں تو طاقتور کیساتھ رہیں لیکن عوام کے دل افغانوں کے ساتھ دھڑکتے رہے
اب جب لٹے پٹے امریکی قافلے سرزمین اسلام آباد پر اترے تو یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کی آئوبھگت کیلئے وہ محفل سجائی کہ دیکھنے اور سننے والے کے دل میں اترتا اطمینان ان کے کمنٹس اور پوسٹوں میں نظر آنے لگا
31 اگست کو سوشل سائٹ ٹوئٹر پرامریکی فوج ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی ۔کی بورڈ کے جنگجوئوں نے ایک سے بڑھ کر ایک گرہ لگائی کہ پوری غزل ہی بنا دی ،بالخصوص کسی منجلے کی جانب سے امریکی فوج کے میس کی ایک پرانی تصویر کو فوٹو شاپ کی مدد سے احساس پناہ گاہ میں بدلنے کی طرز نے تو پورا مشاعرہ ہی لوٹ لیا ،جبکہ امریکی فوج کی حفاظت پر مامور پنجاب پولیس پر بننے والی جگتیں داد وصولنے میں دوسرے نمبر پر رہیں
سوشل میڈیا کے جنگجو اور جگتوں کی چاندماری
ایم افضال نامی ایک ٹوئٹر صارف نے 1989 میں افغانستان سے نکلنے والے آخری روسی سپاہی اور 30 مارچ 2021 کو جہاز پر سوار ہونے والے آخری امریکی سپاہی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
میرےپیچھے اور کوئی سپاہی نہیں دو سپرطاقتوں کے افغانستان سے نکلنے کی یادگار تصویریں
سید غازی علی زیدی نامی صارف نے کہا
امریکی فوج کے 20 سالہ غلبہ کا ڈرامائی اختتام ۔افغانستان میں شکست کے بعد امریکہ کا انخلاء ،یہ ایک عالمی طاقت کے تشخص کیلئے بڑا دھچکا ہے ،وہ 20 سال قبل طالبان سے لڑنے کیلئے آئے لیکن آج بہترین ہتھیاروں سے مسلح اور مضبوط طالبان کو اپنے پیچھے چھوڑ کر جار رہے ہیں
آزاد قیدی نامی صارف نے کہا اب افغانستان کا نام سن کر بھی امریکیوں کو خوف آئے گا
امریکی فوجیوں کی تصویر کیا وائرل ہوئی عبدالہادی نے ابھی نندن کے تذکرے کو یاد دلانا بھی ضروری سمجھا
اپنی ٹوئٹ میں کہا
ابھی نندن کو چائے اور امریکی فوجیوں کو پناہ گاہ میں مزیدار کھانا
امریکی فوجیوں کی آمد ہوئی تو لوگوں کو بھولی ہوئی پنجاب پولیس بھی یاد آ گئی ۔ایک ٹوئٹر صارف نے خیالی منظرنامہ بیان کرتے ہوئے لکھا
ویسے کتنا شغل لگ رہا ہوگا ایئرپورٹ پر جب پنجاب پولیس امریکی فوجیوں کی لائن سیدھی کروا رہی ہوگی
اوئے جوزف سدھا ہو کے کھلو
پیٹر میرا پتر لائن سیدھی کر
مائیکل بندے دا پتر بن تے پچھے چل
البتہ احتشام فدا نامی ایک صارف نے جگت بازی میں مصروف ٹویٹرین کی اصلاح کو اپنا قومی فرض سمجھتے ہوئے یاد دلایا کہ احساس پناہ گاہ کے حوالے سے امریکی فوجیوں کی سوشل میڈیا پر زیرگردش تصویر جعلی ہے
پاکستان نے امریکہ کو کوئی اڈہ نہیں دیا بلکہ وہ بالکل بھی نہیں کے موقف پر قائم ہے
پاکستان زندہ باد
جبکہ صحافی و تجزیہ نگار سید عتیق کا اس سارے قصے پر تبصرہ حبیب جالب کے ان اشعار کی صورت میں رہا
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا