آزادی ڈیسک
اتوار کے روز سربنیکا کے ایک قبرستان میں حال ہی میں شناخت ہونے والی مزید 19 افراد کی لاشوں کی تدفین کی گئی ،دو نوعمرلڑکوں،ایک خاتون اور 16 مردوں کی لاشوں کی شناخت حال ہی میں ڈی این اے کے ذریعے ممکن ہوسکی
یہ ان ساڑھے آٹھ ہزار مقتولین میں شامل ہیں جنہیں 1995 میں بوسنیا کے شہر سربنیکا میں سرب فوجوںنے اجتماعی قتل عام کا نشانہ بنایا تھا ۔
واضح رہے کہ 1995 کے قتل عام میں مارے جانے والے ہزاروں مسلمان مرد،بچوں اور خواتین میں سےاجتماعی قبروں سے ملنے والی لاشوں میں سے اب تک 6600 سے زائد افراد کی شناخت ہوچکی ہےیہ یورپ کی تاریخ کا دوسری جنگ عظیم کے بعد سب بڑا منظم نسل کشی کا واقعہ تھا
20 رشتہ داروں کو کھونے والی رضوانویچ کا دکھ
میں ہر روز علی الصبح اٹھ کر اپنے شوہر اور اس کے بھائی کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتی ہوں،اسی قبرستان میں میرے چچائوں اور ماموئوں کی قبریں ہیں ،قادفہ رضوانویچ کے 20 رشتہ دار مرد سربنیکا قتل کا نشانہ بنے لیکن ان کی باقیات کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا
یہ بھی پڑھیں
- افغانستان کی 5 سرحدی کراسنگ طالبان کے زیر قبضہ ،دو ہفتوں میںپورے ملک پر غلبے کا دعویٰ
- جزیرہ نما بلقان کی مسلم آبادی اور درپیش چیلنجز (حصہ اول )
- ارض فلسطین پر یہودی قبضے کی تاریخ (حصہ سوم )
- ترکی کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت سے اسرائیل خوفزدہ کیوں ؟
رحیمہ حلیمویچ اپنے بھانجے کا جسد خاکی دفن کرنے سربنیکا پہنچی ہیں ،ان کا بھانجا اصناف اس وقت 22 سال کا نوجوان تھا جب سرب فوج نے اسے دیگر مردوں کیساتھ قتل کردیا
وہ بتاتی ہیں کہ جب سربنیکا پر سربوں کا قبضہ ہوا تو ان کا بھانجا اپنے بھائی اور میرے شوہر کے ہمراہ جنگل کے راستے فرار ہوا لیکن وہ پھر لوٹ کر نہ آئے
اس سال دفن ہونے والوں میں ازمیر عثمان سب سے کم عمر تھے ،جب انہیں قتل کیا گیا تو اس وقت اس کی عمر صرف 16 سال تھی جبکہ 63 سالہ حسین کرباسج سب سے معمرتھے
اتوار کے روز تدفین ہونے والوں کی شناخت وصیل حمزہ بیگ ،محی الدین مہمتویچ ،رمیز سلیمویچ ،اصناف خلیل ،معمرمجید ،مہمت بیگانویج ،حاجرہ الیج ،یوسف علیج ،زاجیم حسن ،عاصم نوکیج ،نذیر دائود وج ،ابراہیم ،یوسف خلیل ،صالح ،مہیو،فکرت اور زلیخا دلیج شامل ہیں
نئی تدفین کے بعد سربنیکا کے یادگاری قبرستان میں شناخت شدہ مقتولین کی تعداد 6،671 ہوچکی ہے
مقتولین کی تلاش جاری
تدفین کیلئے آئے آزر نامی ایک شہری نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی عثمانویچ کی باقیات کو دفن کرنے آئے ہیں
لیکن 2018 میں اس کی صر ف کھوپڑی مل پائی جس کی شناخت ایک ماہ قبل ہوسکی ہے
لیکن جو بھی ملا اس کو ٹھکانے پہنچانے آیا ہوں تاکہ کوئی ایسی نشانی تو موجود ہو جہاں میں اپنے بھائی کی روح کے ایصال کےلئے دعا کرنے آسکوں
واضح رہے کہ اجتماعی قتل عام کے دوران سینکڑوں لوگوں کو گروپوں کی شکل میں قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کر کے چھپا دیا گیا تھا ۔جبکہ سربنیکا میموریل سنٹر کے ترجمان الماس صالحویج کے بقول اجتماعی قبروں کی تلاش مشکل ہوتی جارہی ہے ،جبکہ ہمیں ابھی بھی ایک ہزار سے زائد لاپتہ افراد کی تلاش ہے
نسل کشی کے واقعات کے انکار پر غم و غصہ
رواں سال سربنیکا قتل عام کے یادگاری دن کے موقع پر بوسنیا کے سرب رہنمامیلورڈ دودک نے ٹی وی انٹرویو میں ایک بار پھر نسل کشی کے واقعات کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کوئی واقعہ پیش نہیں آیا
جبکہ گمشدہ افراد کے نام پر خالی تابوت زمین میں دفن کئے جارہے
جس پر بوسنین انسٹیٹوٹ آف مسنگ پیپلز کے سربراہ امر موسویج نے سرب سیاستدان کے اس بیان کو خوفناک قرار دیا ہے
انہوں نے کہا بعض مقامات پر متاثرین کی صرف چند ہڈیاں ملی ہیں جنہیں دفن کیا گیا ہے
یورپی کمیشن کا ردعمل
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ جوزپ بوریل اور کمشنر اولیور ویراہیلو نے بلقان کی سیاسی قیادت کو ماضی کا سامنا کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا
یورپ کے اندر رہتے ہوئے نسل کشی کو جھٹلانے اور جنگی مجرموں کی عظمت کو بیان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ،جبکہ سرب وزیروں کی مخالفت کی وجہ سے بوسنیائی حکومت 11 جولائی کو قومی یوم سوگ قراردینے میں کامیاب نہ ہوسکی
بوسنیا کی اجتماعی قبریں
ہر سال 11 جولائی کو بوسنیا کے قتل عام میں شناخت ہونے والوں کی تدفین عمل میں لائی جاتی ہے ،یہ وہ دن ہے جب 11 جولائی 1995 کو سرب فوجوں نے ہزاروں مسلمان مردوں اور بچوں کا قتل عام کیا
قتل عام کا نشانہ بننے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو سربنیکا پر سربوں کے قبضہ کے بعد جنگل کے راستے فرار ہونے کی کوشش میں پکڑے گئے جنہیں بعدازاں سرب فوجوں نے ڈھونڈ کر قتل کیا اور انہیں اجتماعی اور بے نشان قبروں میں دفن کردیا گیا
اقوام متحدہ کی جانب سے تفتیش کے دوران اب تک ملک کے مختلف حصوں سے 570 قبریں دریافت ہوئیں ،جنہیں بعدازاں سرب لیڈروں کےخلاف مقدمات میں بطور شہادت پیش کیا گیا
اب تک دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں میں سے ملنے والی باقیات کو شناخت کے بعد ہر سال 11 جولائی کو سربنیکا کے یادگاری قبرستان میں اعزاز کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے
یہ وہ دن ہے جب سربنیکا میں اجتماعی قتل عام اور نسل کشی کے واقعات کا آغاز ہوا ،1992 سے 1995 کے دوران جاری رہنے والی اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے تھے
یہ ایک خونریز جنگ تھی جب یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد تین بڑی قومیتیں سرب ،کروٹ اور بوسنین ایک دوسرے کیساتھ نبرد آزما ہوگئیں
لیکن سربنیکا کا قتل عام ان سب میں سب زیادہ خونریز اور خوفناک تھا ،جہاں ہزاروں مردوں اور نوعمر لڑکوں کو قتل کردیا گیا
اقوام متحدہ کے محفوظ قراردیئے جانے والے علاقے میں قتل عام
بوسنیا میں جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے سربنیکا کو محفوظ علاقہ قراردیا ،لیکن سرب کمانڈر جنرل راتکو ملادج کی قیادت میں سربنیکا پر قبضہ کرلیا گیا اور وہاں تعینات ڈچ فوج انہیں نہ روک سکی
شہر پر قبضہ ہوا تو 15 ہزار شہری فرار ہو کر پہاڑوں اور جنگلوں میں پناہ گزیں ہوگئے ،جنہیں بعدازاں ڈھونڈ کر ٹولیوں کی صورت میں گولیاں مار کراجتماعی طور پر قتل کردیا گیا
قتل کئے جانے والے ہزاروں افراد کو اجتماعی اور بے نشان قبروں میں دفن کیا گیا ،اب تک 570 ایسے بے نام اجتماعی قبروں کی نشاندہی ہوچکی ہے ،جنہیں اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے بطور ثبوت سرب کمانڈروں کے خلاف پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد کمانڈروں کے خلاف نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر مختلف سزائیں ہو چکی ہیں
بشکریہ ٹی آر ٹی ورلڈ سروس