اعجاز علی
سوات
جزیرہ نما بلقان جغرافیائی لحاظ سے یورپ و ایشیا کے درمیان پھیلے خطے کو کہا جاتا ہے ،جس کی سمندری حدیں شمالی افریقہ سے جاملتی ہیں ،جبکہ بلغاریہ کے طول و عرض میں پھیلے سلسلہ ہائے کوہ بلقان اس خطے کی وجہ تسمیہ ہے
اس خطے میں رومانیہ ،ترکی ،یونان ،بلغاریہ ،شمالی مقدونیہ کے علاوہ 1990 میں تحلیل ہوجانے والی سابقہ وفاقی جمہوریہ یوگوسلاویہ میں شامل سات ممالک کوسوو،مونٹی نیگرو،سربیا ،بوسنیا ہرزیگوینا ،کروشیا اور سلووینیا بھی شامل ہیں
خطہ بلقان کی مسلم آبادی اور انہیں درپیش چیلنجز
بلقان کے خطے میں آباد مسلمانوں کے مسائلہ کاآغاز خطے میں کمیونزم کے خاتمے وفاقی جمہوریہ یوگوسلاویہ کی تحلیل سے ہوا جہاں ،بوسنیا میں تقریبا 2 لاکھ جبکہ کوسوو میں بھی ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا
اسرائیلی انتخابات میں اسلام پسند جماعت کی کامیابی
معاہدہ لوزان اور 2023 کے بعد کا ترکی
شام کی داستان خون آشام اور حوصلوںکاقصہ
رحیم اللہ یوسفزئی دنیائے صحافت کا معتبر و محترم نام
خاص طور پر1995 میں بوسنیا کے ایک قصبے سربنیکا میں 8 ہزار سے زائد بچوں اور مردوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ،اور یہ سب کچھ جدید مہذب دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا ،لیکن اس کے باوجود آج بھی مسلمان خطہ بلقان میں بڑی تعداد میں موجود ہیں
وفاقی بوسنیا ہرزی گووینیا ،کوسوو،شمالی مقدونیہ کی اکثریت آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ،تاہم کروشیا ،سلووینیا اور مونٹی نیگرو میں ان کی تعداد قلیل ہے
البانیا کی غالب آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن 2011 کی مردم شماری میں مسلم آبادی میں واضح کمی ظاہر کی گئی جس پر مسلم رہنمائوں کی جانب سے مردم شماری کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھایا گیا جہاں مسلم آبادی کو ذیلی حصوں کے طور پر گنتی کیا گیا ،جن مین بیکتاشی مسلم ،سنی و دیگر شامل ہیں ،
جبکہ مسلم رہنمائوں کو خدشہ ہے کہ البانیا کا اس طریقہ کار کے تحت مردم شماری کا مقصد یورپ کے اندراپنی اکثریت مسلم آبادی کی بنیاد پر مسلم تشخص کو چھپانا ہے ،اس کے علاوہ بلغاریہ اور یونان میں مسلمان اقلیت ہیں
اعداد وشمار کے مطابق ترکی کے علاوہ خطہ بلقان کے ممالک کی مجموعی 50 ملین آبادی میں سے 17 ملین آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ،جبکہ عیسائیت کے بعد اسلام اس خطے کا دوسرا بڑا مذہب ہے
بلقان کے سیاسی و اقتصادی مسائل
دو عظیم جنگوں کے بعد خطہ بلقان سیاسی مراجعت کا دور رہا رہا ،جس کے بعد رومانیہ ،بلغاریہ ،سلوینیا ،یونان اور کروشیا یورپی یونین کے رکن بنے جبکہ سربیا ،مونٹی نیگرو اور البانیا کے یونین میں شمولیت کے لئے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے
کوسوو یورپ میں جزوی طور پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ علاقہ ہے ،دوسری جانب مقدونیہ اور یونان کے درمیان حال ہی میں نام کے تنازعہ کا مسئلہ حل ہونے کے بعد اسے شمالی مقدونیہ کا نام دیا گیا ۔اس کے ساتھ بوسنیا کا سیاسی عدم استحکام بھی اس کی یورپی میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔بلقان ممالک سربیا ،بوسنیاہرزیگوینیا اور کوسوو نے تاحال ناٹو میں شمولیت اختیار نہیں کہ جبکہ دیگر تمام ممالک اس معاہدہ کا حصہ ہیں
اگرچہ مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے کچھ پہلوئوں پر کامیابیاں ضرور ملی ہیں ،لیکن ان کا سماجی مستقبل تاحال واضح نہیں
1929-30 کے بعد 2008 کے معاشی بحران نےخطہ بلقان کو شدید متاثر کیا ،یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دوعشروں سے ان ممالک کی اقتصادیات بحران کا شکار ہیں ،جبکہ معاشی اصلاحات سے تاحال مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے ۔یہی وجہ ہے کہ بلقان کا خطہ یورپ میں کم ترین ترقی یافتہ ہے
اگرچہ اس خطے کی یورپ یونین میں مکمل شمولیت اور ترقی کےلئے اقدامات اٹھائے گئے لیکن ابھی بہت سا سفر باقی ہے
بوسنیا ہرزیگوونیا میں مسلمانوں کی صورتحال
90 کی دہائی میں ہونے والی جنگوں نے بوسنیا کو تباہ کردیا ،لیکن یہ ملک آج بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جو اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ بلقان کے ممالک نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ملک کا نظام بوسنیائی اور کروشیائی اکائی پر پر مشتمل وفاقی ڈھانچہ پر استوار ہے ،جبکہ جمہوریہ سربیا اس کے متوازی ہے
سربیا اور کروشیا کے سیاسی رسوخ نے ملک کے سیاسی نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے معاشی ترقی سست روی کا شکار ہے ،جس سے پورے خطہ بلقان پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں
جنگ کی تباہ کاریاں آج بھی بوسنیا کےلئے ایک بھیانک یاد ہیں ،جوکہ یورپی یونین میں انضمام اوراقتصادی سست روی ملک کو ایک بار پھر بحران میں دھکیلنے کا سبب بن سکتی ہیں ،جبکہ بوسنیا کی سرب آبادی کی جانب سے سربیا کیساتھ انضمام کا بڑھتا ہوا مطالبہ بھی اس خدشہ کو بڑھا رہا ہے جو کہ عالمی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے
لیکن چین روس کی موجودگی بوسنیا کے ٹوٹنے کے عمل کو روک سکتی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ بوسنیا کی سالمیت کا تحفظ اس صورت میں بھی ممکن ہے اگر اسے یورپی یونین کی رکنیت مل جائے اور اس حوالے سے ترکی جو کہ خود بھی نیٹو کا رکن ہے اہم کردار ادا کرسکتا ہے
بوسنیا کو تجدید کو ضرورت ہے
بوسنیا کو یورپ سے اس کا مسلم تشخص جدا کرتا ہے ،سراجیوو کے غازی خسرو بے ادارے نے اسلامی نظریات کی ترویج کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ،جس کے نتیجے میں بوسنیا کے بارے میں ایک بنیاد پرست شبیہ تشکیل پائی ،شاید اس میں جنگ اور بعدازاں کچھ مسلم گروہوں کا بھی کردار رہا ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے بوسنیا خطہ بلقان کے مسلمانوں اور یورپ میں مسلمانوں کی نمائندگی کا ایک مضبوط مرکز رہا ہے ،بوسنیائی مسلمانوں کا عظیم علمی ورثہ رہا ہے ،لیکن اب بوسنیا یورپ کے دیگر ترقی یافتہ ممالک تک پہنچنے کے لئے کو سائنس ،تہذیب اور اقتصادی شعبہ میں بھی سرمایہ کاری کی ضروری ہے
کوسوو کے مسلمانوں کی صورتحال
کوسوو کی سیاسی صورتحال بھی بوسنیا سے زیادہ مختلف نہیں ،شاید اس کی بڑی وجہ بھی ماضی قریب کی جنگ ہے جس نے اس خطے کے مسلمانوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ،یہ خطہ بھی ابھی تک سیاسی استحکام حاصل نہیں کرسکا ،اور آج بھی اس کا زیادہ تر انحصار امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں پر ہے
کوسوو نے 2008 میں اپنی آزادی کا اعلان کیا ،جسے اب تک دنیا کے صرف 80 ممالک نے تسلیم کیا ہے ،لیکن تاحال یہ ملک کسی عالمی تنظیم کا رکن نہیں ،شمال میں بسنے والی سرب آبادی کی جانب سے علیحدگی کے مطالبہ نے بھی اس ملک کی سلامتی کےلئے خطرات پیدا کردیے ہیں
کوسوو کی پرسٹینا یونیورسٹی نے ملک میں تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا لیکن یہ 1969 میں کمیونسٹ دور میں قائم ہوئی جس کی وجہ سے نئی نسل اپنی اسلامی تاریخ اور ثقافت سے دور ہوگئی ۔اس لحاظ سے کوسوو میں مذہبی تعلیم اور تہذیب کی ترویج کےلئے کام کے مواقع موجود ہیں
حالیہ عرصہ کے دوران ترکی کی جانب سے کوسوو کے سکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں سے ترکی عثمانیوں کے خلاف مواد حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا
کوسووکن پہلوئوں پر توجہ دے
1999 کی جنگ کے بعد ملک میں بہت سی عیسائی اور لبرل تنظیموں نے اپنے ادارے فعال کئے ہیں ،اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوسوو بھی اسلامی تعلیمات کی تعلیم و ترویج کےلئے اقدامات اٹھائے ،اسلامی تعلیمات کو تعلیمی نظام کا حصہ بنائے تاکہ مسلم آبادی کی مذہبی استعداد میں اضافہ ہوسکے ،اس حوالے سے کوسوو کا ادارہ مذہبی امور اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں مسلم ممالک کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
جاری ہے
اعجاز علی فری لانس صحافی ہیں۔ انہوں نے جرمنی سے یوروپین اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے اور ان سے ijazsrsp@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے