آزادی ڈیسک
لاہور ہائیکورٹ نے توہین مذہب کیس میں‌2018 میں سزا پانے والے مسیحی نوجوان کو ضمانت پر رہا کردیا ہے ،ملزم نبیل مسیح‌پر 2016 میں‌مقامات مقدسہ کی توہین آمیز تصاویر شیئر کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جسے عدالت نے2018 میں‌جرم ثابت ہونے پر 10 سال قید کی سزا سنائی تھی .اس وقت ملزم کی عمر سولہ سال تھی .
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملزم کے وکیل نصیب انجم نے ضمانت منظور ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم رہائی ملنے کے وقت کے حوالے سے انہوں‌نے لاعلمی کااظہار کیا.
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان میں‌توہین مذہب یا رسالت کے متعدد واقعات و الزامات منظر عام پر آچکے ہیں‌،جن کے بارے میں‌مغربی ممالک کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اکثر ایسے واقعات کو ذاتی مخاصمت کا شاخسانہ قرار دیتے رہے ہیں‌


غربت سے تنگ ماں‌نے اپنے دو کمسن بچوں‌کو جلا دیا

ہمارے علامہ اقبال ایسے تو نہ تھے ،اعتراض کے بعدمجسمہ ہٹا دیا گیا


2011 میں‌گورنرپنجاب سلمان تاثیر کو ان کے محافظ ممتاز قادری نے توہین اسلام کی ملزمہ آسیہ مسیح کی حمایت کے الزام میں‌گولی ماردی تھی ،جبکہ ممتاز قادری کو عدالت نے سزائے موت سنائی ،اور اس واقعہ کی ملزمہ آسیہ مسیح‌کو بعدازبیرون ملک بھیج دیا گیا تھا .جو اپنے خاندان کے ساتھ اس وقت کینیڈا میں‌مقیم ہیں‌.
دوسری جانب ضمانت پر رہا ہونے والے ملزم نبیل مسیح‌کے وکیل نصیب انجم نے میڈیا کو بتایا کہ وہ نبیل کی رہائی کو جلد از جلد یقینی بنانے کےلئے دستاویزی کاروائی مکمل کرر رہے ہیں‌.ملزم نبیل مسیح‌کے کیس کی پیروی برٹش ایشین کرسچیئن ایسوسی ایشن کی جانب سے کی گئی .
ایسوسی ایشن کی ایک عہدیدار جولیٹ چوہدری نے رہائی پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں‌نبیل کی رہائی کی خوشی ہے تاہم ایک نوجوان کے قیمتی سال ضائع ہونے کا افسوس بھی ہے .
جبکہ مدعی کے وکیل غلام مصطفے چوہدری نے بھی ضمانت کی تصدیق کی ہے.