فتح الملک

مہتر سابق ریاست چترال


جب ہم برطانیہ سے آزادی کے وقت آزادی یا نیم خودمختار ریاستوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو اکثر کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد پانچ سو کے قریب تھی ،شاید یہ بات کسی حد تک درست نہ ہو ۔کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر ریاستیں نہیں بلکہ بڑی یا چھوٹی جاگیریں تھیں ،جن کے مالکان کو خطابات دیئے گئے تھے 

اگرصحیح معنوں میں ریاست کی تعریف کی جائے تو 500 کی اس تعداد میں بمشکل سو کے قریب ہی اس کی تعریف پر پورا اترتی ہیں ۔جن کا اپنا کوئی الگ سے سیاسی نظام یا تشخص موجود تھا ۔برطانوی ہند کی تقریبا تمام شمال مغربی مسلم نوابی ریاستیں پاکستان کیساتھ ملحق ہوگئیں ،لیکن کچھ ایسی ہندو ریاستیں بھی تھیں جو نئے ملک پاکستان کیساتھ الحاق کے قریب تھیں لیکن بوجوہ وہ پاکستان کا حصہ نہ بن سکیں

تقسیم کے منصوبے کے تحت تمام نوابی ریاستوں کے پاس تین انتخاب تھے ،ہندوستان کے ساتھ شامل ہوں ،پاکستان کا حصہ بن جائیں یا آزاد رہیں ۔تاہم برطانیہ نے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ کسی بھی ریاست کی جانب سے تیسرے انتخاب یعنی آزاد رہنے کی حمایت نہیں کریگا اور نہ ہی کانگریس نے اس کی حامی بھری ۔

                                                           ہانونت سنگھ مہاراجہ جودھ پور

اس معاملہ میں مسلم لیگ اور قائداعظم کے موقف میں قدرے لچک تھی جو ان ریاستوں کو برطانوی دور میں حاصل اندرونی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے حامی تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ماسوائے ایک سب سے بڑی اور امیر ریاست کے سوا کوئی بھی ریاست آزاد ملک کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی

لیکن یہ حقیقت جاننے کے باوجود بھی اکثر ریاستوں کے حکمران خفیہ طور پر اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے خواہاں تھے ،جبکہ زیادہ تر اس حقیقت کو سمجھتے تھے انہیں بہرحال پاکستان یا ہندوستان کسی ایک کے ساتھ شامل ہونا ہوگا

مکمل آزادی یا خودمختاری کے معاملے پر ہندوستان کی صرف تین ریاستوں نے زیادہ سنجیدگی سے غور کیا ان میں ریاست حیدر آباد دکن ،ریاست ٹراونکور اور کشمیر شامل ہیں ۔


یہ بھی پڑھیں :

جنوبی ہندوستان میں مالابار کے ساحل پر آباد ٹراونکور ایک قدیم ہندو ریاست تھی ،جس کا زیادہ تر حصہ آج کل کے کیرالہ وغیرہ پر مشتمل ہے ۔بہترین بندرگاہوں کے راستے عالمی تجارت ،زرخیز زمینیں ،چاول ،ناریل ،چائے کی پیداوار کے لحاظ سے خودکفیل ، ظاہرمیں بحیرہ عرب اور عقب میں مغربی گھاٹ کے بلند پہاڑ اس کے بہترین محافظ تھے جو اسے ایک آزادانہ ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتے

خودمختاری جس کا ہر کوئی خواہشمند تھا

دوسری ریاست حیدرآباد دکن تھی جو رقبے اور وسائل کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی اور امیر ریاست تھی ،نظام حیدرآباد دکن دنیا کے امیر ترین شخص تھے ،ریاست کا ڈھانچہ اور نظام ایک آزاد ملک کی حیثیت سے مکمل صلاحیتوں کا حامل تھا

،لیکن اس ریاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے چاروں اطراف بھارت واقع تھا ،اس کا بیرونی دنیا سے رابطے کا کوئی سمندری راستہ نہ تھا۔نظام حیدرآباد نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور عالمی سطح پر پاکستان سے سفارتی مدد مانگی

لیکن ایک سال کے اندر ٹراونکور اور حیدرآباد دونوں ریاستیں سیاسی دائو پیچ اورفوج کشی کے ذریعے بھارتی وفاق کا حصہ بنادی گئیں

جہاں تک کشمیر کا سوال ہے تو مہاراجہ کشمیر اپنی آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھنے کی بہترین پوزیشن میں تھے اور آخری وقت تک ان کی یہی خواہش رہی ۔تاوقتیکہ بریگیڈیر سام مانکشا اور وی پی مینن نے ان پر واضح کیا کہ اگر انہیں فوجی مدد درکار ہے توانہیں بھارت کیساتھ شامل ہونا ہوگا ۔

جبکہ پاکستان کے ساتھ الحاق انہیں جبرمحسوس ہوا اس لیئے جموں کشمیر کی پاکستان کیساتھ شمولیت ان کی ترجیح نہ تھی

لیکن ان تینوں ریاستوں کے علاوہ چند ریاستیں یا ان کے حکمران ایسے تھے جو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے اور اس کے قریب ترین پہنچ چکے تھے

ہندوستان میں آزاد ریاستوں پر مشتمل فیڈریشن کا نظریہ

ان نوابین میں سے ایک بھوپال کے نواب حمید اللہ خان تھے ،جوموجودہ دور کے متحدہ عرب امارات یا ملائیشیا کی طرز پر ہندوستان کے اندر اپنی قیادت میں چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں کی فیڈریشن کے قیام کے متمنی تھے ۔

نواب حمیداللہ خان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور کٹر مسلم لیگی تھے ۔انہوں نے راجپوتانہ کی تین اہم ریاستوں کے مہاراجوں کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے پر قائل کرلیا

تقسیم کے بنیادی اصول کے مطابق کسی بھی ریاست کے الحاق میں جغرافیائی محل وقوع بھی اہمیت کا حامل تھا اور نہرو نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ریاستوں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں اس پہلو کو مدنظر رکھنے کی تاکید کی ۔


یہ بھی پڑھیں :

یہی وجہ ہے کہ موجودہ بھارت کی جغرافیائی حدود کے اندرواقع مسلم اکثریتی ریاستیں خواہش کے باوجود پاکستان میں شامل نہ ہوسکیں ۔قائداعظم محمد علی جناح نے اس اصول کو مغربی راجپوتانہ کی تین ریاستوں جودھپور ،جیسلمر اور بینکانیر کے حکمرانوں تک رسائی کیلئے استعمال کیا جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں اور بہت سے تاریخی اور ثقافتی حوالوں سے وادی سندھ کا حصہ تھے

جودھپور اور بیکانیر کے راٹھور اور جیسلمر کے بھٹی راجپوتانہ کے قدیم ترین اور باوقار راجواڑے تھے جو کانگریس کے ہاتھوں اپنے شاندار ماضی کو نہیں کھونا چاہتے تھے ۔جبکہ محمد علی جناح انہیں بہت سی سیاسی اور اندرونی آزادیوں کی ضمانت دے رہے تھے

بیکانیر کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی ایک اور وجہ بھی تھی کیوں کہ ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت ریاست کو سیراب کرنیوالی نہروں کے ہیڈورکس پاکستان کے حصے میں آچکے تھے ،جس سے انہیں دریائے ستلج کے پانی سے محروم ہونے کا خدشہ پیدا ہوا

جس پر مہاراجہ بیکانیر نے نواب حمیداللہ خان کے ذریعے قائداعظم محمد علی جناح کو پیغام بھجوایا کہ اگر ستلج کے پانی پر ان کا حق تسلیم کرلیا جائے تو بیکانیر پاکستان کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے

جودھپور پاکستان کے ساتھ ان شرائط پر الحاق کیلئے تیار ہوا کہ جودھپورکو داخلی خودمختاری اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی ، اسلحہ خریدنے اور فوج رکھنے کی اجازت ہوگی ۔عالمی تجارت کیلئے کراچی بندرگاہ تک آزادانہ رسائی حاصل ہوگی ۔اس کے علاوہ ہانونت سنگھ مہروال کا علاقہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی سرحدیں دوپاکستانی ریاستوں بہاولپور اور خیرپور سے ملتی تھیں۔مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں بات چیت ایک مرحلے پر آکر رک گئی ۔اور ولی عہد یوراج بھی مہاراجہ کو الحاق پرقائل نہ کرسکے

وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو کسی طرح اس معاملے کی بھنک پڑ گئی ۔انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سرگنگا نگر کو پانی فراہم کرنے والے ہیڈورکس مغربی پنجاب کے بجائے مشرقی پنجاب میں شامل کئے جائیں ۔یوں مہاراجہ نے قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات نہیں کی اور ریاست بیکانیر ہندوستان کا حصہ بن گئی

جودھپور کے مہاراجہ ہانونت سنگھ کانگریس کے شدید مخالفین میں سے تھے ،وہ محمد علی جناح سے ملنے کےلئے تیار ہوگئے ،جہاں قائداعظم نے انہیں سادہ کاغذ پر الحاق کی شرائط لکھ کر دینے کی پیش کش کی ۔

جودھپور پاکستان کے ساتھ ان شرائط پر الحاق کیلئے تیار ہوا کہ جودھپورکو داخلی خودمختاری اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی ، اسلحہ خریدنے اور فوج رکھنے کی اجازت ہوگی ۔عالمی تجارت کیلئے کراچی بندرگاہ تک آزادانہ رسائی حاصل ہوگی ۔

                                                           جیسلمر قلعہ کا بیرونی منظر

اس کے علاوہ ہانونت سنگھ مہروال کا علاقہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی سرحدیں دوپاکستانی ریاستوں بہاولپور اور خیرپور سے ملتی تھیں۔مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں بات چیت ایک مرحلے پر آکر رک گئی ۔اور ولی عہد یوراج بھی مہاراجہ کو الحاق پرقائل نہ کرسکے

کیوں کہ مہاراجہ کا اصرار تھا کہ وہ ہندو ہیں اور اگر کل کلاں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو وہ اپنے ہندو برادری کا ساتھ دینے کے پابند ہوں ۔یوں یہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے

جس کے بعدوی پی مینن اور ولبھ بھائی نے ان کے ساتھ مذاکرات کے طویل اور کڑے مراحل کے بعد انہیں ہندوستان میں شامل ہونے پر رضا مند کرلیا ۔کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب کسی بات پر بگڑ کر مہاراجہ نے اپنا پستول نکال کر وی پی مینن کے ماتھے پر رکھ دیا ۔

بھارت کے ساتھ الحاق کے باوجود مہاراجہ کی کانگریس کے ساتھ مخاصمت کم نہ ہوسکی اور لوک سبھا کے انتخاب میں انہوں نے کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے گاندھی کے قریبی ساتھی اور ذاتی خادم کومتعدد بار بدترین شکست سے دوچار کیا

نوابی ریاستوں کی داستان طویل اور دلچسپ ہے ،لیکن برطانوی راج کے آخری ایام میں ہمیں ان ریاستی حکمرانوں کی جدیددنیا سے ہم آہنگی کیلئے سیاست کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ماضی میں راجپوت اکثر مسلمان حکمرانوں کے حلیف رہے ہیں جس کی بڑی مثال مغلیہ دور ہے ۔اگر صحیح معنوں میں سیاست کے ذریعے کام لیا جاتا تو آج ممکنہ طور پر آدھا راجھستان پاکستان کا حصہ ہوتا

 

مضمون نگار سابق ریاست چترال کے مہتر ہیں،جو خطے کی جدید و قدیم ثقافت ،تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں–