آزادی ڈیسک

 

اسرائیل کی ایک یونیورسٹی نے حالیہ سالوں کے دوران ترکی کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت کو اسرائیل کیلئے خطرہ قرار دیا

حیفہ یونیورسٹی کی جانب سے اسرائیل سنٹر فار میری ٹائم پالیسی اینڈ ریسرچ سنٹر کی جانب سے جاری کی جانیوالی تازہ رپورٹ میں خطے میں ترک بحریہ کی بڑھتی ہوئی طاقت مستقبل میں اسرائیل کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے

اس لئے تل ابیب کو انقرہ کے بڑھتے ہوئے اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا ۔رپورٹ مرتب کرنیوالے کرنل شلوم گوئٹے نے مزید لکھا ترک بحریہ نے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے جو طویل فاصلے تک کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے

ترکی کی جانب سے آئندہ چند سالوں میں  اپنے بحری آبدوزوں کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ اگلے چند سالوں کے دوران مزید 12 سے 14 آبدوزیں بیڑے میں شامل ہونے سے خطے میں ترکی کو اسرائیل پر بالادستی حاصل ہوجائے گی جبکہ ترکی کی جانب سے فروری میں Atmaca میزائل سے لیس فریگیٹ کے کامیاب تجربے کا بھی ذکر کیا گیا ہے

مزید ہڑھیں

شام میں خانہ جنگی کے دس سال اور اقدار و جنگ میں پھنسی خواتین

اسرائیل کیساتھ تعلقات فلسطین میں امن سے جڑے ہیں ،سعودی عرب

واضح رہے کہ فضا سے فضا میں مار کا حامل یہ میزائل چھوٹی کشتیوں اور بڑے بحرے جہازوں کے ذریعے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ،جو کہ اس سے قبل ترک بحریہ کے زیراستعمال امریکی ہارپون میزائل کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر اور بہتر صلاحیتوں کا حامل ہے

ترک میزائل کی مار 200 کلومیٹر ہے جو کہ بصری سطح سے بھی باہر موجود ہدف کیلئے خطرناک ترین ہتھیار ہے ۔جبکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ میزائل داغے جانے کے بعد بھی ہدف تبدیل کرنے اور واپس آنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ،ان کی تیاری 2009 میں شروع ہوئی لیکن پیداواری عمل 2018 میں شروع کیا گیا

اس کے علاوہ ترک بحریہ انادولو بحری بیڑے پر بھی کام جاری رکھے ہوئے ،جبکہ ایک امریکی فوجی ماہر کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بیڑے کی تکمیل سے ترکی کو بحراسود اورمشرقی بحیرہ روم میں وسیع پیمانے پر بالادستی کا حامل بنا دے گا

علاوہ ازیں ترکی اپنے فوجی اسلحہ خانے میں بھی بے پناہ اضافہ کررہا ہے ،جن میں ہزاروں کلومیٹر مار کے حامل کروز میزائل بھی تیار کررہا ہے ،جبکہ ترکی جرمنی کی مدد سے آبدوز اور دیگر بحری سازوسامان مقامی سطح پربھی تیار کررہا ہے

حالیہ سالوں کے دوران ترکی نے بڑے پیمانے پر بحری مشقوں کا اہتمام کیا جس میں سو سے زائد بحری جہاز اور جنگی جہاز شامل تھے

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ترک بحریہ اس وقت اپنی سمندری حدود سے کہیں دور باہر بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتی جو کہ اگرچہ اس کے روایتی حریفوں کیلئے بڑا خطرہ ہے تاہم اسرائیل کو اس خطرے کو ذہن میں رکھنا ہوگا ،کیوں کہ اسرائیل کی بقا کا زیادہ تر انحصار سمندری راستے پر ہے