آزادی ڈیسک
بھارتی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی ،درون خانہ افغان طالبان قیادت سے مراسم بڑھانے کی کوششیں تیز کردیں ،
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھارتی وزارت خارجہ کے ذمہ داروں کے حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ دنیا اور بالخصوص علاقائی طاقتوں کے طالبان کے بارے میں نرم ہوتے رویے سے بھارتی خارجہ پالیسی میں بھی کچھ تبدیلیوں کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد بھارتی اعلیٰ حکام نے طالبان رہنما ملابرادرکیساتھ رابطے بحال کئے ہیں۔اور یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب مستقبل کے افغان منظر نامے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان کا کردار مزید واضح ہوتا دکھائی دے رہا ہے
یہ بھی پڑھیں
- عمران خان،موجودہ حالات میں بھارت سے تعلقات کشمیریوں سے غداری ہوگی
- مسلم دشمنی کی بنیاد پر استوار ہونیوالا بھارت اسرائیل معاشقہ
- پاکستان کن شرائط پر بھارت سے مذاکرات کا خواہشمندہے ؟
- افغانستان سے مجوزہ امریکی انخلا پر بھارت پریشان
رپورٹ میں مزید کہا گیا اس سے قبل افغانستان میں بھارت کی توجہ کا مرکز زیادہ تر وہ گروپ تھے جنہیں پاکستان کے زیراثر تصور نہیں کیا جاتاتھا ،لیکن حالیہ چند ماہ کے دوران بھارتی حکام نے طالبان قیادت اور بالخصوص ملا برادرسے بھی رابطے کئے ہیں
رپورٹ میں ملابرادر اور پاکستان کے درمیان ماضی میں ہونے والے واقعات کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے ،جس میں لکھا گیا ہے ملابرادر جنہیں طالبان تحریک کے قیام میں دوسری اہم پوزیشن حاصل رہی ہے کا حالیہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور انخلاء میں بھی اہم کردار ہے
اس سے قبل 1996 سے 2001 کے دوران طالبان دور اقتدار میں ملا برادرکئی اہم اور کلیدی عہدوں پر تعینات رہے ہیں ۔تاہم 2010 میں انہیں پاکستان کے خفیہ ادارے نے کراچی سے گرفتار کرلیا تھا ،
تاہم 2018 میں رہائی کے بعد انہوں نے دوحہ کے سیاسی دفتر کی سربراہی سنبھال لی ۔جہاں انہوں نے 2020 میں امریکہ کے ساتھ انخلاء کے معاہدے پر دستخط کئے ۔
اس وقت بھارت افغانستان کے کئی اہم اور بڑے منصوبوں میں3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے ،لیکن افغان طالبان کے پاکستان کے زیر اثرہونے کے تاثر کے باعث اس نے طالبان سے دوری اختیار کئے رکھی۔
بھارتی محکمہ خارجہ کے اہلکاروں کے دعویٰ کے مطابق اس سے قبل بھارت نے طالبان کے پاکستان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کسی قسم کے روابط قائم نہیں کئے تھے ،
تاہم حالیہ عرصہ کے دوران افغانستان میں طالبان کے کچھ ایسے عناصر کو اختیارات حاصل ہوئے ہیں جو مکمل طور پر پاکستان کے زیر اثر نہیں ہیں جس کی وجہ سے بھارت نے بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے
جب کہ ایک اور اہلکار کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ90 کی دہائی میں بھارت ،روس اور ایران نے طالبان کیخلاف شمالی اتحاد کیساتھ بھر پور تعاون کیا ،لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ،جس کے تحت بھارت بعض طالبان قیادت کیساتھ روابط بڑھانے پر مجبور ہوا ۔
لیکن بھارتی سوچ اس حوالے سے بہت واضح ہے کیوں کہ کوئٹہ شوریٰ یا حقانی نیٹ ورک جو مکمل طور پر پاکستان کے زیر اثر ہیں بھارت کی ترجیحات میں شامل نہیں
تاہم رپورٹ میں واضح کیاگیا کہ بھارت کے طالبان کے ساتھ روابط دیگر افغان قوتوں کیساتھ متوازی ہیں ،جن میں سابق صدر حامد کرزئی ،افغان یکجہتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ شامل ہیں
جبکہ گذشتہ ماہ بھارتی امور خارجہ کے جوائنٹ سیکرٹری جے پی سنگھ کا دورہ افغانستان اسی سلسلے کی کڑی تھی ،جہاں انہوں نے مختلف افغان رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد نئی ترجیحات کا تعین کیا گیا
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں جمہوری عمل ،خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور طالبان کی جانب سے اسلامی امارت کے قیام کے حوالے سے بھارت کا موقف بدستور اپنی جگہ پر ہے ،تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ طالبان رہنما حقائق کو سمجھ چکے ہیں
اور وہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں ،کیوں کہ یہی بات طالبان کو عالمی سطح پر اپنا تشخص بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے
بھارتی تجزیہ نگار سمیر پٹیل کےبقول اگرچہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے کافی ابہام ہیں ،
لیکن بغیر کسی سیاسی مفاہمت کے ایک خانہ جنگی اور طالبان کا مکمل غلبہ نوشتہ دیوار دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے مفادات کے تحفظ کیلئےطالبان کیساتھ روابط استوار کرنے کا خواہاں ہے
اس کے علاوہ طالبان کیساتھ روایتی ہچکچاہٹ کو ختم کرکے بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ بھارت طالبان کیساتھ اپنے مخاصمانہ تاثر کو ختم کرے