دیگر پوسٹس

تازہ ترین

!!!مذاکرات ہی مسائل کا حل ہے

سدھیر احمد آفریدی کوکی خیل، تاریخی اور بہادر آفریدی قبیلے...

حالات کی نزاکت کو سمجھو!!!

سدھیر احمد آفریدی پہلی بار کسی پاکستانی لیڈر کو غریبوں...

ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات!!

کدھر ہیں ماحولیاتی آلودگی اور انڈسٹریز اینڈ کنزیومرز کے محکمے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں آبادی بیشک تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اپنا گھر ہر کسی کی خواہش اور ضرورت ہے رہائشی منصوبوں کی مخالفت نہیں کرتا اور ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کو ضروری سمجھتا ہوں تاہم ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر اور اس سے جڑے ہوئے ضروری لوازمات اور معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور باقاعدگی سے ان ہائی رائزنگ عمارتوں کی تعمیر کے وقت نگرانی کی جانی چاہئے

متبادل پر سوچیں!! سدھیر احمد آفریدی کی تحریر

یہ بلکل سچی بات ہے کہ کوئی بھی مشکل...

طالبان کی واپسی کے مناظر جو پاکستانی صحافی نے دیکھے

شہزاد سلطان بلوچ علاقائی و قومی مسائل کو موضوع کو اجاگر کرتے ہیں ،پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں،مشاہدے اور مطالعہ کے شائق ہیں ۔حال ہی میں افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ،جسے انہوں نے ایک سفر نامے کی شکل میں قلمبند کیا ہے 

مجھے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنی کم علمی اور کم معلومات کا اقرار کرنا ہوگا کہ بلوچ تاریخ سے متعلق جتنا میں نے پڑھا ہے اس کے حساب سے قدیم بلوچ تاریخ کو محفوظ کرنے میں خود بلوچوں کا کردار انتھائی محدود رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ بھی یا تو زبانی یعنی لوک کہانیوں کی صورت میں ملی ہے دوسرے کی لکھی ہوئی ہے ۔اس لئے میری عرصہ دراز سے خواہش تھی کہ اس بارے میں ایک مکمل اور جامع کتاب لکھی جائے ۔جس میں پاکستان اور اردگرد پھیلے بلوچوں کو بھی شامل کیا جائے ۔بالخصوص افغانستان جہاں بڑی تعداد میں بلوچ اب بھی موجود ہیں

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر ارادے کو مکمل ہونے کے لئے مخصوص حالات یا تو پیدا کرنا پڑتے ہیں یا بعض اوقات خود ہی ایسے مواقع میسر آجاتے ہیں ۔جب آپ کو آپ کی خواہش کی تکمیل ہوتی نظر آنے لگتی ہے ۔اور پھر آپ اس عزم کو لئے منزل کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں ۔لیکن منزل تک پہنچتے پہنچتے آپ کو کن حالات اور واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ آپ کبھی بھی میدان میں اترے بغیر نہیں کرسکتے

بالکل میرے ساتھ بھی یہی ہوا جب ہمارے پڑوس یعنی افغانستان میں حالات ایک بار پھر پلٹا کھایا اور کل کے دربدر اور بالجبر حکومت سے نکالے جانے والے بے سروسامان طالبان پورے کروفر کے ساتھ واپس لوٹ آئے اور غنیم رات کی تاریکی میں جس طرح آیا تھا اسی طرح ناکام و نامراد لوٹ گیا ۔

میرے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ جا کر سرحد کے اس پار ان بلوچوں سے بھی ملاقات کی جائے جو اب بھی بڑی تعداد میں وہاں آباد ہیں کیوں کہ ریاست بلوچستان کا بڑا حصہ اب بھی افغانستان کا حصہ ہے ۔میرے اس سفر کا مقصد ان لوگوں سے ملاقات کرنا تھا جنہوں نے گذشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں آنے والے مدوجذر کو قریب سے دیکھا ،جانچا اور اس کا سامنا کیا

آغاز سفر

میں یہ بھی سمجھنا چاہتا تھا کہ اس سارے منظرنامے میں ان کا کردار کیا رہا ہے،اور مسلسل ہونے والے ردوبدل کے نتیجے میں ان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ۔بالخصوص طالبان کی پہلی آمد ،اقتدار سے زبردستی بے دخلی ،دو دہائیوں پر مشتمل امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ اور ایک پھر طالبان کی واپسی کے دوران ان پر کیا بیتی اور اب ان کی کیا سوچ ہے

اور پھر جب گذشتہ ایک دو مہینوں کے دوران افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہونے والی صورتحال کو دیکھنے اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد کے حالات قدرے پرسکون ہوئے تو دل میں دبی دیرینہ خواہش نے ایک زوردار انگڑائی لی اور پھر ایک روز میں اپنا رخت سفر باندھ کر روانہ ہوگیا

اسے آپ میری خوش فہمی یا غلط فہمی کہیں مگر میرے لئے افغانستان کا امن طالبان کے ہاتھوں زیادہ بہتر نظر آتا ہے بہ نسبت جمہوری حکومت کے، میرا ارادہ تھا کہ افغانستان میں ہرات، فراہ اور نیمروز میں اس کے متعلق کوشش کی جائے،

جب میں افغان سرزمین پر قدم رکھا اور اسپین بولدک کے بارڈر پر پاکستان کے پرچم کے آگے افغان حدود میں طالبان کا پرچم نظر آیا تو یہ احساس میرے لئے بہت عجیب تھا کہ جس جھنڈے کو دنیا دہشتگردی کی علامت کے طور پر دیکھتی تھی آج وہی جھنڈا کسی قوم کی ترجمانی کے طور پر بارڈر پر لہرا رہا ہے۔

وہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر بولدک بازار گیا جہاں ایک چوک تھا جو کہ بولدک چوک کے نام سے مشہور تھا وہاں ایک ہوٹل پر بیٹھ گیا، ہوٹل پرموٹی رضائیاں بچھی تھیں ،اور آرام دہ تکیے بھی رکھے ہوئے تھے، میں وہاں بیٹھا تو حسب معمول چائے کا آرڈر دیا


یہ بھی پڑھیں


کچھ دیر میں ویٹر نے ایک چینک،ا یک کپ، چند عدد میٹھے چوزری لے کر آیا، مجھے حیرت ہوئی کہ یہاں ایک کپ کی بات نہیں تھی، میں نے چائے انڈیل دی جو بقول کسی دوست کے چائے کا مشابہ کوئی چیز ہوسکتی ہے مگر اس پر چائے کا اطلاق نہیں ہوسکتا،

کچھ دیر میں میری نگاہوں نے ایک شناسا چہرہ تلاش کرلیا اور پھر یہ چہرے دو ہوگئے، یہ اقبال مینگل اور حماد مینگل تھے، حماد میرے مدرسہ فیلو رہے ہیں اور بہت اچھے دوست بھی ہیں، اس سے گیارہ سال کی دوستی ہے

اقبال مینگل دوست بھی ہیں اور ایک بہترین صحافی بھی، وہ پہلے امت اخبار میں کام کرتے تھے، آج کل انتخاب اخبار کے خضدار سے نمائندہ اور 92 نیوز کے رپورٹر ہیں، ان سے مل کر مجھے اور زیادہ خوشی ہوئی، اقبال مینگل سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ کوریج کے لئے آئے ہیں،

میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک ساتھ چلا جایا جائے جہاں اقبال اپنا کام کرتا رہے اور میں اپنا، یوں ہم دونوں بلکہ تینوں نے مل کر آگے کا پلان طے کیا۔اسپین بولدک کندھار کا سرحدی شہر ہے اور اس شہر میں ہی سابق سربراہ قندھار پولیس جنرل عبدالرازق کی رہائش گاہ ہے

دوستوں کے ہمراہ بولدک سے آگے

یہ رہائش گاہ ایک بڑے فوجی مرکز کے بیچ میں ایک شاندار بنگلہ اور چند دیگر کمروں پر مشتمل ہے، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر جہاں خلوص اور نظریئے نے جنرل رازق کو طالبان کے خلاف لڑنے پر آمادہ یا مجبور کیا تھا وہیں بڑی حد تک ڈالروں کا بھی عمل دخل تھا

یہ گھر اب طالبان کے قبضے میں تھا، وہاں رہائش پذیر طالبان کے بقول ہمیں ہمارے سربراہوں کی جانب سے ان گھروں کا پانی، اور بقدر ضرورت برتن اور بستر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے سے منع کیا گیا ہے، یوں بقیہ سامان جس حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا اسی حالت میں موجود تھا۔

بولدک شہر میں جگہ جگہ جنرل عبدالرازق کی تصاویر آویزاں تھیں جن کا چہرہ مٹایا گیا تھا، جہاں اس کے تصویروں کے بورڈ لگے ہوئے تھے ان پر پتھراؤ کے نشان تھے ، مقامی لوگوں کے مطابق بچوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا تھا جس کی کچھ ویڈیوز ہم نے بھی دیکھیں ۔

بولدک میں ہم نے ایک جگہ کھانا کھایا، تھوڑی دیر آرام اور بغیر چینی کے سبز چائے پینے کے بعد قندھار شہر کی طرف روانہ ہوئے،ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم نے حسب معمول بات کا آغاز کردیا

ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ پہلے ہم سے ایک پھیرےکا 260 افغانی (ٹول ٹیکس+ لائن ٹیکس) وصول کیا جاتا تھا، واضح رہے کہ بولدک سے قندھار شہر کا کرایہ 250 افغانی ہے، کبھی کم بھی ہوتا ہے مگر اس سے زیادہ نہیں ہوتا،

لیکن جب سے طالبان آئے ہیں تو انہوں نے 200 روپے کم کرلئے ہیں اور صرف 60 افغانی ایک پھیرے کا لیا جاتا ہے، آگے جاکر جب اس نے ٹول پلازہ پر پیسے جمع کرائے اور پرچی لی تو پرچی ہم نے پڑھی، واقعی 60 افغانی وصول کیے گئے تھے،

حیرت اس بات پر ہوئی کہ 15 اگست کابل فتح کے صرف تین دن بعد امارت اسلامیہ افغانستان کے نام کے پرچی تیار تھی اور ٹیکس بل باقاعدہ کمپیوٹر پرنٹڈ ہوتا تھا، یعنی طالبان انتظامی طور پر اتنے تیز تھے کہ نہ صرف ٹیکس میں کمی کی بلکہ مکمل نظام اور طریقہ کار بھی ترتیب دیدیا، وہ بھی جنگ سے نکلے ہوئے ابھی تین چار دن ہوئے تھے، واہ۔


یہ بھی پڑھیں


اس کے بعد ہم نے سڑک کے اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ایک چیز نوٹ کی، شاہراہ پر ہر چند کلومیڑ کے بعد ایک فوجی مرکز آتا، ان مراکز میں سے کچھ تباہ حال تھے اور کچھ پر سفید پرچم لہرا رہا تھا، سڑک مکمل پختہ  تھی اور چند مقامات پر جہاں امریکی یا افغان فوجیوں کے مراکز ہوا کرتے تھے ان کے سامنے سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں تھیں

جن مین سے کچھ کو ہٹادیا گیا تھا جبکہ کچھ باقی تھیں، ان مراکز پر امریکی، نیٹو یا کسی دیگر پرچم کے بجائے ایک سفید پرچم لہرایا گیا تھا، اس پر کلمہ لکھا ہوا ہوتا اور بعض پر نہیں ہوتا، یہ شاید تسلیم ہونے کے اعلان کے طور پر لگائے گئے تھے۔

ڈرائیور ہمیں جگہوں کے بارے میں بتاتا رہا اور ہم سنتے رہے،اگرچہ ہمیں ڈرائیور کی پشتو مکمل سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، اسی دوران اس نے ہمیں بتایا کہ یہ راستہ قندھار ایئرپورٹ کی جانب جارہا ہے،

وہاں ایک بڑا سا چوک تھا جہاں ہم نے گاڑی رکوائی اور خود ایئرپورٹ کی حفاظت پر مامور طالبان اہلکاروں سے بات کرنے کے لئے گئے، وہاں سے ویڈیو ریکارڈ کی جسے 92 نیوز نے نشر کیا جس کو بہت پذیرائی ملی،

ایئرپورٹ کے گیٹ پر ایک بکتربند کمرہ تھا جس میں بہت سارے کارڈز رکھے ہوئے تھے جو افغان آرمی کے ان 27 ہزار اہلکاروں میں سے چند کے تھے جو 800 طالبان اہلکاروں کے سامنے تسلیم ہوئے تھے،یہ بھی دنیا کی عسکری تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہوگا

قندھار ہمارے اندازوں سے زیادہ خوبصورت

یہاں تھوڑی دیررکنے کے بعد ہم قندھار شہر میں واقع بس اڈہ پر پہنچے، وہاں پر احمد شاہ ابدالی بابا ہوٹل میں بیٹھے، چائے پی اور موبائل بھی چارج کیا، اس کے بعد ایک اور جگہ رہائش کا بندوبست کیا، عمومی طور پر وہاں کے ہوٹلوں میں رہائش کے لئے الگ کمرے نہیں ہیں، بلکہ ایک بڑا سا ہال ہوتا ہے جس میں چارپائیاں رکھی ہوتی ہیں جبکہ بعض جگہوں پر چارپائیاں نہیں ہوتیں بلکہ زمین پر ہی بستر لگا کر سونے کا بندوبست کیا جاتا ہے

رہائش کا انتظام ہوگیا تو قریبی مسجد میں نماز پڑھنے چلے گئے ،وہیں چوکی میں تعینات طالبان کو گاڑیاں اور خاص طور پر موٹرسائیکل چیک کرتے دیکھ کر ان کے پاس رک گئے ۔طالبان ہر روکی جانے والی گاڑی کی چیکنگ کے دوران اسلحہ کا لازمی پوچھتے ،اور معمولی پوچھ تاچھ کے بعد انہیں جانے کی اجازت دیدی جاتی ۔

تاہم وہ وہاں سے گزرنے والے موٹرسائیکلوں کو خصوصی طور پر چیک کررہے تھے ،خاص طور ان کے انجن نمبر وغیرہ دیکھے جاتے ،جو ہمارے لئے باعث حیرت تھا کہ گاڑیوں کے بجائے موٹرسائیکلوں پر اتنی سختی کیوں ؟آخر ہم نے ایک طالب سپاہی جسے تھوڑی بہت انگریزی آتی تھی سے اس کی وجہ پوچھی

اس نے بتایا کہ در اصل امارت اسلامیہ نے بڑے ذمہ داروں کے سوا سب مجاہدین کو غیر مسلح کردیا ہے تاکہ یہ لوگ زیادہ تر جنگی ماحول میں رہنے کی وجہ سے لوگوں کے کسی بات پر مشتعل نہ ہوں اور کسی کو نقصان نہ پہنچادیں، اس لئے ہم اس فیصلے پر عمل درآمد کرارہے ہیں،

اور موٹر سائیکلوں کی تلاشی تھوڑی سی سختی اس لئے ہے کہ ایک موٹر سائیکل چوری ہوگئی ہے جس کا انجن نمبر تمام چوکیوں کو دیا گیا ہے، اسی کو ڈھونڈنے کے لئے موٹرسائیکلوں کا انجن نمبر دیکھ لیا جاتا ہے،

ہم تھوڑی دیر ان کے پاس رکنے اور باتیں کرنے کے بعد اپنی رہائش گاہ پر واپس پہنچے جہاں ہماری رہائش تھی وہ علاقہ اینومینہ کہلاتا تھا جسے قندھار میں ڈیفینس کی حیثیت حاصل تھی، یہاں امریکہ کی خدمت کرنے والوں  نے عوام کو لوٹ کر عالی شان بنگلے تعمیر کئے تھے۔اور اگلے دن کے سفر کی تیاری کو ذہن میں رکھتے ہوئے لمبی تان کر سو گئے

اگلی صبح ہم نے بازار کا رخ کیا، قندھار ہماری توقعات سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا، کشادہ سڑکیں، خوبصورت چوراہے، اور تمام سڑکوں کے بیچ میں لہراتے سفید پرچم جو ملک میں رونما ہونے والی تبدیلی کا اعلان تھا ،

ہمارا رخ شہیدان چوک قندھار تھا یہ شہر کا معروف مقام ہے جس کی شہرت ہم نے خبروں میں بھی سنی تھی، وہاں پہنچنے سے کچھ دیر قبل ہمیں ایک جگہ رش دکھائی دی،ہم بھی تھوڑا قریب پہنچے تاکہ دیکھ سکیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے؟

وہاں رکنے پر علم ہوا کہ شیعوں کا جلوس تھا،یہ جلوس قندھار پریس کلب سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا ،جلوس کی حفاظت پر طالبان مامور تھے ۔جنہوں نے اطراف سے اس مقام کو اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا ،جبکہ شیعہ برادری کا ایک سرکردہ رہنما طالب کمانڈر کیساتھ کھڑا تھا ،جو جلوس میں آنے والوں کی شناخت کررہے تھے ،شیعہ رہنما جس کی تصدیق کرتے ،طالب کمانڈر اسے جلوس میں جانے کی اجازت دیدیتے اور جنہیں اجازت نہ ملتی انہیں واپس لوٹا دیا جاتا ،اس اقدام کا مقصد ممکنہ طور پر کسی اجنبی یا شرپسند کو جلوس میں داخلے سے روکنا تھا


یہ بھی پڑھیں


ہماری آنکھوں کے سامنے معاملہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مثلاً بی بی سی ،وائس امریکہ یا دیگر مغربی میڈیا کی خبروں کے بالکل برعکس تھا ،جو مسلسل یہی خبریں دے رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد اقلیتوں اور بالخصوص شیعہ برادری پر سختی کی جارہی ہے اور انہیں مارا جارہا ہے

اس مقام پر تھوڑی دیر رکنے کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور تھوڑی دیر میں ہی شہیدان چوک میں جاپہنچے ،جہاں ہم نے قندھاری آئسکریم کا لطف اٹھایا اور زرا سستانے کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے کیوں کہ ہمارا ارادہ شہیدان چوک سے متصل مسجد تک جانا تھا

مذکورہ مسجد کی بنیادطالبان امیر ملامحمد عمر کے ہاتھوں رکھی گئی تھی ،لیکن طالبان حکومت کے خاتمے ،امریکی قبضے اور افغانستان میں جمہوریت اور ایک بار پھر طالبان کی واپسی کے درمیان  20 سال گزرنے کے باوجود ابھی بھی یہ مسجد نامکمل حالت میں تھی

20 سال بعد بھی نامکمل ملا عمر کی مسجد

ملا عمر جن کے بارے میں دنیا کی رائے کچھ بھی ہوسکتی ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ افغان تاریخ کا ایک اساطیری کردار ہیں ،جنہوں نے ملک کی حکمرانی ملنے کے باوجود سادہ ترین زندگی بسر کی ۔اور صرف اپنی روایات اور مذہبی اقدار کی حفاظت کے لئے حکومت تو قربان کر دی لیکن اپنے مہمان کو دشمن کے حوالے کرنے سے انکار کردیا ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے پیروکاروں یعنی طالبان نے 20 سال تک مسلسل دنیا کے سب سے طاقت ور ملک اور خطرناک ترین ہتھیاروں کا سامنا کیا ،لیکن اپنے نظریہ اور جدوجہد سے بال برابر انحراف نہ کیا ۔اور پھر بیس سال بعد دنیا نے دیکھا کہ کیسے ایک سپر پاور رات کی تاریکی میں ملک چھوڑ کر بھاگ نکلی ۔

مسجد جو کہ ابھی تقریباً 60 فیصد مکمل ہوئی ہے ،لیکن اس کا طرز تعمیر انتہائی شاندار اور خوبصورت ہے ۔جب اس بارے میں وہاں چند لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اگرچہ مسجد کا کام گذشتہ 20 سال سے رکا تو نہیں ہے لیکن یہ مکمل بھی نہیں ہو سکی

حالانکہ طالبان کے جانے کے بعد آنےوالی حکومت نے مسجد کے نام پر یہاں سے گزرنے والی تمام بڑی گاڑیوں سے چار ہزار افغانی تک وصول کئے ،اور ہر روز وہاں سے کم و بیش ایک ہزار گاڑیاں گزرتی تھیں ۔اس طرح مسجد کے نام پر لاکھوں کروڑوں افغانی وصول کئے گئے لیکن شاید ان کو مسجد پر خرچ کرنے کی توفیق نہ ہوسکی

مسجد چونکہ بند تھی اس لئے ہم اندر نہ جاسکے اور کچھ دیر وہاں لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعدایک قریبی مارکیٹ کی جانب چلے گئے ،ہم وہاں پہنچے تو بہت سے لوگ ہمارے اردگرد جمع ہوگئے ،انہوں نے ہمیں ایک جگہ بٹھایا ۔

ماضی کے ستائے دکاندار

دکانداروں سے افغانستان کی گزشتہ اور موجودہ صورتحال کے بارے میں گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ایک دکاندار جسے اچھی خاصی اردو آتی تھی کیوں کہ اس نے بتایا کہ وہ افغانستان سے ہجرت کے بعد کافی عرصہ تک کراچی میں کاروبار کرتا رہا ہے

وہ بڑا تاجر تھا ،جو چین سے براہ راست مال خرید کرلاتاتھا ،اس نے بتایا کہ پچھلی حکومت میں ہم بارڈر پر کسٹم ٹیکس دیتے تھے جو بہت زیادہ ہوتاتھا، اس کے بعد جب ہمارے کنٹینر قندھار شہر پہنچتے تو حکومتی اہلکار اس مال کو اپنے قبضہ میں لے لیتے اور تاجروں سے کہا جاتا کہ اتنی رقم جمع کروائو اور آکر مال لے جائو۔اور کئی بار ایسا ہوا کہ جب وہ اضافی رقم دیکر بھی اپنا مال چھڑوا کر لاتے تو اس میں سے بھی قیمتی سامان غائب ہوتا ۔تاجر دہرے نقصان تلے دبے ہونے کے باوجود مجبوراً خاموش رہتے کیوں کہ کہیں شنوائی کی جگہ نہ تھی ۔اور اگر کوئی شکایت کربھی دیتا تو اس کیلئے نئی مصیبت آجاتی 

اس تاجر نے اپنا آئی فون کھولا اور ایک نمبر مجھے دکھایا جس پر حاجی ارور لکھا ہوا تھا، پروفائل پر ایک فوجی وردی میں ملبوس شخص کی تصویر تھی، اس نے بتایا کہ یہ یہاں کا ایک معمولی کمانڈر تھا، اس کی فرمائشوں کی پوری لسٹ اس نے مجھے دکھائی،

گرمیوں کے آنے پر اس نے اپنے 6 کمروں کے لئے اے سی مانگا تھا، پھر وہ اے سی پسند نہ آنے پر 6 اور، جب کہ پرانے بھی واپس نہیں کئے۔اسی طرح جب سردیاں آئیں تو اس نے گیس ہیٹر مانگ لئے ۔غرض ہر کچھ ماہ بعد وہ کوئی نہ کوئی ڈیمانڈ کردیتا، اس نے کہا کہ ہمارے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی، اگر کوئی شخص کچھ نہ دیتا یا دینے میں دیر لگادیتا تو اس کے دکان کو آکر تالا لگا دیتے، پھر کھلوانے کے لئے اس سے بڑی رقم مانگتے۔

وہاں ایک اور تاجر نے بتایاکہ باہر کھڑے ہر رہڑی بان سے جو فروٹ بیچتے تھے ہر ہفتے کا 1500 افغانی وصول کرتے تھے، فروٹ اس کے علاوہ تھے، اس نے کچھ گاڑیوں کی تصاویر بھی دکھائی جوکمانڈروں نے ان سے چھینی تھیں،


یہ بھی پڑھیں


تاہم اب یہ تمام تاجر پرامید تھے کیوں کہ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ جس شخص کی ذاتی ملکیت سابق حکومت کے کسی بھی عہدیدار نے چھینی ہے وہ ثبوت لے کرآئے  اسے اس کی چیز واپس کردی جائے گی، یہاں کے ہر دکاندار کا یہی حال تھا اور ان کے پاس سنانے کو یہی کہانیاں،

ایک تاجر نے کہا کہ جس دن قندھار فتح ہوا اس دن میں بازار آتے ہوئے قریبی چوکی پر افغان آرمی کے چند اہلکاروں کے لاش دیکھی تھیں، اگر مجھے یقین ہوتا کہ طالبان کی فتح عارضی نہیں بلکہ مستقل ہے اور یہ لوگ پیش قدمی کرکے کابل بھی فتح کرلیں گے اور ان کی حکومت بن جائے گی، پھر کوئی اور طاقت مسلط نہیں ہوگی تو میں افغان آرمی کے مرے ہوئے اہلکاروں کے لاشوں پر پیشاب کرلیتا۔

ایک تاجر نے بتایا کہ یہاں باچا نامی کمانڈر تھا جو اب طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہے اس کے کارنامے نہایت گھٹیا اور گندے تھے، جو لڑکے سکول جاتے ان میں جو خوبصورت ہوتے وہ اچانک غائب ہوتے، شروع شروع میں تو کسی کو علم نہیں تھا بعد میں سب کو پتہ چلتا کہ لڑکوں کو اٹھا کر کہاں لے جایا جاتا ہے، جب باچا کا کیمپ طالبان کے ہاتھوں میں آیا تو وہاں 117 لڑکے برآمد ہوئے، ہم ان لڑکوں (وہاں موجود لڑکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کے سر ننگا کرتے تھے تاکہ انہیں پسند نہ آئیں اور غائب نہ ہوں۔

ان تاجروں سے بات چیت کے دوران ان کے الفاظ میں چھپے کرب کا ہم براہ راست اندازہ کررہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے یہاں ہر گھٹیا کام کو پچھلی حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، بدلے میں صرف طالبان سے لڑنا لازم تھا، یہ کہانی ہم نے صرف ایک سپر مارکیٹ کے تاجروں کی زبانی سنی مگر در حقیقت یہ پورے قندھار بلکہ افغانستان کی کہانی تھی۔

میں نے ایک تاجر سے پوچھا کہ کیا ایسے لوگ بھی ہیں جو طالبان کی آمد سے ناخوش ہیں؟

اس نے جھٹ سے موبائل نکالا اور ایک ویڈیو دکھائی، یہ ایک چور کی ویڈیو تھی جس نے ایک دن قبل ایک موٹر سائیکل چوری کیا تھا اور آج پکڑا گیا تھا، تاجر نے کہا کہ پہلے ان لوگوں کو تحفظ حاصل تھا، اب چوری کے بعد ایک ہی دن میں گرفتار ہوتے ہیں تو کون ناخوش ہو گا۔

اگرچہ ان دکانداروں اور تاجروں کے پاس سنانے کو بہت کہانیاں تھیں ،جسے ہم بھی سننا چاہتے تھے ،لیکن وقت بہت مختصر تھا ،اس لئے ہم نے ان لوگوں سے اجازت طلب کی کیوں کہ ہماری منزل طالبان کے مقامی میڈیا نمائندہ سے ملاقات تھی

اس سے فون پر بات ہوئی تو اس نے ہمیں پریس کلب آنے کی دعوت دی ۔لیکن ہمارے لئے ایک مسئلہ ہوگیا ۔کیوں کہ ہم پریس کلب کو ڈھونڈ رہے تھے جبکہ وہاں اسے کلتور ریاست (Culture department) کہا جاتا تھا ۔اور پھر ہمارا آدھا دن اسی پریس کلب اور کلتور ریاست کی تفریق کو سمجھنے میں ضائع ہوگیا

جب خدا خدا کرکے ہمیں یہ فرق سمجھ بھی آیا تو ایک اور مسئلہ دیوار کی طرح ہماری راہ میں حائل نظر آیا ۔کیوں طالبان میڈیا کے اس اہلکار نے ہمیں کہا کہ غیر ملکی میڈیا کو یہاں پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس پر ہم نے اسے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حالیہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میڈیا کو ملک میں کام کرنے کی آزادانہ اجازت ہوگی

لیکن طالب اہلکار نے ہماری دلیل سے اتفاق کرنے سے انکار کردیا اور کہا میں آپ کے رات گزارنے کا بندوبست کرتا ہوں ،صبح میں ذبیح اللہ مجاہد سے بات کر کے آپ کو واضح کردوں گا ۔

لیکن صبح ہوئی تو اس نے کہا ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ بیرونی میڈیا کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے لہٰذا آپ یہاں مزید کام نہ کریں ۔۔۔۔۔

جاری