سدھیراحمدآفریدی

طورخم ،خیبر


برآمدات کے لئے وسط ایشیائی ممالک ترجیح ہے،افغانستان کی موجودہ مارکیٹ میں تجارت کو بڑھانا ہے،نئی مارکیٹ کی تلاش ہے، اپنی انفراسٹرکچر کو بھی بہتر بنانا ہے، کئی دستخط شدہ ایم او یوز پہلے سے موجود ہیں، روس اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مال کے بدلے مال کی (بارٹر) تجارت کو کامیاب بنانے کیلئے تیزی سے کام ہو رہا ہے، کسٹم حکام۔


پاکستان کسٹم کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فی الحال پاکستانی برآمدات کے لئے افغانستان ایک بڑی مارکیٹ کی صورت میں موجود ہے تاہم پاکستانی برآمدات کو افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک اور وہاں سے روس تک پہنچانا اصل ہدف ہے

اسی طرح افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک اور روس سے ضرورت کی مختلف اشیاء درآمد کرینگے تاکہ عوام کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے

اس دو طرفہ تجارت کو بارٹر ٹریڈ کہتے ہیں جو کہ تجرباتی بنیادوں پر پاکستان ان ممالک سے ایل پی جی خرید کر طورخم کے راستے وصول کر چکا ہے تاہم بارٹر ٹریڈ کو کامیاب اور مؤثر بنانے کیلئے کام ہو رہا ہے جس کے لئے ابتدائی طور پر کچھ امپورٹرز، ایکسپورٹرز اور کسٹم کلئیرنگ ایجنٹس کی تربیت بھی کی گئی ہے

پشاور میں کسٹم آفیسر نے بتایا کہ بارٹر ٹریڈ میں براہ راست رقم کی ضرورت نہیں پڑتی یہ مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتی ہے تاہم پھر بھی اس کے لئے بینکوں کا قیام اور دیگر ضروری اقدامات فائنل کرنے ہونگے

یہ بھی پڑھیں

انہوں نے کہا کہ طورخم پر ڈالرز ڈیکلریشن ایک قانونی عمل ہے انہوں نے کہا کہ فی الحال پاکستان سے تازہ پھل، سبزیاں، چاول، سیمنٹ، جوتے اور بوٹس، کھلونے، الیکٹرانکس، میڈیسن طورخم، غلام خان اور خرلاچی کے راستوں برآمد کئے جاتے ہیں جبکہ وہاں سے ماربل،کاٹن یان، سوپ سٹون کوئلہ،انگور اور سیب وغیرہ درآمد کرتے ہیں

کسٹم حکام نے بتایا کہ بینکنگ سسٹم کو فعال بنایا جائیگا تاہم کرنسی نہیں چلے گی انہوں نے طورخم پر درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طورخم میں ایگزامینیشن کے لئے مناسب جگہ موجود نہیں، گاڑیوں کو مجبوراً سڑکوں پر کھڑا کرنا پڑتا ہے تاہم این ایل سی ٹرمینل مکمل ہونے سے کافی مسائل کم ہونگے

پہاڑ کے ملبے کی وجہ سے بھی ایک روڈ بند ہو گئی ہے اور سایہ کا انتظام بھی نہیں پھر بھی کسٹم حکام بہترین اور تیز کام کرتے ہیں ٹرانزٹ کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ 5 فیصد ایگزامینیشن کرتے ہیں اور یہ کہ ٹرانزٹ گاڑیوں میں ٹریکر ہوتا ہے جو کہ ہر صورتحال سے الرٹ رکھتا ہے ٹرانزٹ میں زیادہ تر سامان چائنہ کا ہوتا ہے جن میں کپڑا، ٹائر، کاسمیٹکس، مختلف آئل و دیگر اشیاء شامل ہوتی ہیں

ہر ماہ طورخم کے راستے تین ہزار پانچ سو ٹرانزٹ کی گاڑیاں افغانستان جاتی ہیں اس میں تیس فیصد غلام خان کے راستے سے بھی گاڑیاں جاتی ہیں 24 گھنٹے کلئیرنس ہوتی ہے تاہم طورخم بارڈر پر امپورٹ اور اکسپورٹ کی دو لائنیں ہیں جس سے مشکل پیدا ہوتی ہے اسی طرح روزانہ تیس اور چالیس کے قریب ٹرانزٹ گاڑیاں مختلف سامان لیکر جاتی ہیں

انہوں نے کہا کہ موجودہ کم عملے کے ساتھ تمام تجارتی راستوں سے کسٹم کلئیرنس کا عمل بخوبی سرانجام ہوتا ہے اور اگر افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کو مزید فروغ ملا تو اس بے روزگاری اور غربت میں کمی واقع ہوگی اور پاکستان کی معیشت پر اس کے کافی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے