تحریر : صفدرحسین
تصاویر : شہناز یوسفزئی
محمد افسربابا کو ایبٹ آباد شہر میں مزدوری کرتے ہوئے تقریباً پچاس سال ہوچکے ہیں۔وہ ان درجنوں لوگوں میں شامل ہیں جو ہر روز صبح سے لیکر شام تک اپنے گدھوں پر شہر کے قدیم حصوں میں تعمیراتی سامان اور روزمرہ اشیاء ضرورت کی ترسیل کر کے اپنا گزر اوقات کرتے ہیں ۔ کیوں کہ سربن پہاڑ کے قدموں میں آباد کنج اور کیہال کہلانے والے شہر کے قدیم حصے جو کسی زمانے میں پوش علاقہ ہوا کرتے تھے
،آبادی کے پھیلائو کے سبب بتدریج پہاڑ کو سرکرتے نظر آرہے ہیں ۔ بہتر روزگار اور بنیادی شہری سہولتوں کی تلاش میں بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی کے باعث قدیم شہر پر آبادی کا بے پناہ دبائو بڑھا ،جس کے نتیجے میں تعمیرات کا سلسلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز تر ہوتا گیا ۔ لیکن بغیر کسی شہری منصوبہ بندی کے ہونےوالی ان تیزرفتار تعمیرات سے کئی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں ۔جن میں سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں کی تعمیر اور رسائی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ شہر کے عین وسط میں واقع ہونے کے باوجود ان مقامات پر آج بھی سامان کی ترسیل کیلئے صدیوں قدیم طریقہ کار یعنی گدھے اور خچروں کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ کئی مقامات تک روزمرہ اشیاء ضرورت کی فراہمی و رسائی ابھی بھی کٹھن مرحلہ ہے بالخصوص تعمیراتی صنعت میں گدھے کا کردار ابھی بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔جو تعمیراتی مواد کو ان مشکل اور ناقابل رسائی مقامات تک پہنچانے کا واحدذریعہ ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں
- جابہ تجرباتی مرکز میں تیار ہونیوالی پہلی پاکستانی نسل رمغانی بھیڑ لائیوسٹاک کیلئے نئی امید
- عالمی سیاست ، گوادر بندرگاہ اور قومی منصوبہ سازوں کی نظروں سے اوجھل مسائل
- ایبٹ آباد کا تاریخی گورا قبرستان اور ڈیڑھ سو سال سے نگران مسلمان خاندان
- مقامی حکومتوں کو حاصل 36 اختیارات جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے
ایبٹ آباد اپنے خاص سیاحتی محل وقوع اور آب وہوا کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے ۔جہاں سے ہر سال لاکھوں لوگ شمالی علاقہ جاتے کی سیاحت کیلئے گزرتے ہیں ۔اگرچہ اس شہر کے کچھ حصوں کو منصوبہ بندی کے تحت آباد کیا گیا ۔لیکن وقت گزرنے کیساتھ روزگار اور بہتر شہری سہولتوں کی تلاش میں بڑی تعداد میں نقل مکانی کی وجہ سے اس شہر پر آبادی کا بے پنا ہ دبائو بڑھا ۔ جس کے نتیجے میں تعمیراتی صنعت کو فروغ حاصل ہوا ۔اس وقت اگر تعمیرات کو شہر کی سب سے بڑی صنعت قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا ۔
بغیر منصوبہ بندی بے ہنگم تعمیرات مسائل کی جڑ
23 سالہ مدثر کو اپنے بچپن کے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب وہ سربن پہاڑی کے قدموں میں موجود آبادی سے باہر ایک چھوٹے سے گرائونڈ میں اپنے دوستوں کیساتھ کھیلا کرتے تھے ،لیکن اب اس میدان کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے ۔کیوں کہ جہاں گراونڈ ہوا کرتا تھا وہاں اب مکانات ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے مکانات کا پھیلتا ہوا سلسلہ سربن کو اپنے اندر سموتا جارہا ہے شہر کا قدیم حصہ جسے کنج اور کیہال کہاجاتا ہے کسی زمانے میں ایبٹ آباد کا پوش علاقہ ہوا کرتا تھا جہاں متمول اور امراء کے بنگلے اور کوٹھیاں بنے تھے ،شہر کے وسط میں واقع ہونے اور روزگار ،تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں تک آسان رسائی کی وجہ سے یہ علاقہ آج بھی بڑی آبادی کا نقطہ ارتکاز ہے ۔
لیکن شہری منصوبہ بندی کے بغیر تیزی سے ہونے والی تعمیرات سے کئی مسائل بھی تیزی سے سر اٹھا رہے ہیں ۔اور اس وقت متعدد ایسے محلے اور کوچے آباد ہوچکے ہیں جہاں تک سڑک کی رسائی ممکن دکھائی نہیں دے رہی ۔جس کی وجہ سے یہاں کی بڑی آبادی کو اپنی تعمیرات اور روزمرہ سامان ضرورت کی ترسیل کیلئے صدیوں قدیم طریقہ کار یعنی گدھے کی خدمات پر انحصارکرنا پڑتا ہے
انسانی تہذیب کی تعمیر و ترقی میں گدھے ،گھوڑے اورخچرجیسے باربردارجانوروں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ،اور بالخصوص دیہی زندگی میں یہ جانور بنیادی جزو رہا ہے۔تاہم رسل و رسائل کے ذرائع بہتر ہونے کی وجہ سے آج شہری اور دیہی علاقوں سے ان جانوروں کا روایتی استعمال ختم کر رہ گیا ہے ۔
لیکن ایبٹ آباد شہر کے وسطی مقامات پر گدھا آج بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔اور اس وقت بھی درجنوں گدھے کنج اور کیہال میں تعمیراتی سامان اور روزمرہ اشیاء صرف کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہیں ۔ انہیں دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ گدھا کام چور نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے لیکر آج تک انسانی تہذیب و ترقی کا اہم معاون اور مخلص جانور ہے ۔
اور آج کے اس جدید دور میں بھی ان مقامات پر نقل و حمل اور سامان کی ترسیل کا اہم اور بنیادی ذریعہ صرف اور صرف گدھا ہے ۔جہاں پرپیچ اور خم کھاتی سربن کے دامن سے لپٹی تنگ گلیوں میں تعمیراتی مواد اٹھائے گدھوں کو دیکھ کر بچپن میں پڑھی جانے والی تمام کہانیاں جھوٹی لگنے لگتی ہیں