اہل غزہ ہمیں معاف کرنا !!


سدھیر احمد آفریدی
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مسلمان سارے ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے ایک حصے میں تکلیف اور درد سے پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے 7 اکتوبر علی الصبح سے فلسطین کے غزہ نامی علاقے کے 22 لاکھ مسلمان تکلیف میں ہیں اور منٹوں کے حساب سے روزانہ اسرائیلی فضائیہ کی بمباری، بحری اور بری افواج کے توپ خانے اور میزائلوں کے بے دریغ اور بلا تفریق استعمال سے غزہ کی شہری آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے فلسطینی مسلمان بچوں، خواتین اور عام لوگوں کو شہید کر رہی ہیں
اسرائیل کا دعوٰی ہے کہ حماس کی طرف سے 7 اکتوبر کے اچانک حملے میں ان کے 1400 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ 200 افراد کو زندہ پکڑ کر مغوی بنایا گیا ہے
اسرائیلی حکام کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کے دن ہلاک ہونے والوں میں سے 1159 کی شناخت کی گئی ہے عالمی اداروں اور میڈیا کے مطابق آج تک 31 ایمبولینس گاڑیاں، 51 طبی مراکز اور 16 بڑے ہسپتال اسرائیل کی ظالمانہ اور اندھا دھند بمباری کی وجہ سے تباہ کئے گئے ہیں
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق پانچ نومبر تک غزہ کی پٹی کے 35 میں سے 16 ہسپتال (46 فیصد) اور 76 میں سے 51 طبی مراکز اسرائیلی حملوں یا ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔
فلسطینی حکام کے مطابق تقریباً 50 ایمبولینسز کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچا ہے ان میں سے 31 خراب ہیں اور کم از کم 175 ہیلتھ ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔
انٹرنیشنل قانون کے تحت امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے اور ان کی سہولیات کا تحفظ ہر حال میں ضروری ہے جس کو کسی بھی حال میں نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے لئے کام کرنے والے عملے کے کم از کم 88 ارکان اور سول ڈیفنس کے 18 امدادی کارکن مارے گئے ہیں
یہ بھی پڑھیں
- غزہ جنگ ،حماس کی 10 نکاتی حکمت عملی جو اسرائیل کو زمین بوس کرسکتی ہے
- غزہ،جہاں زندگی ہرلمحہ موت کا انتظار کرتی ہے
- فلسطین اسرائیل تنازعہ اور کشمیری انتفادہ
- اسراٸیلی جیل میں قید فلسطینی شہری کے سمگل شدہ نطفے سے بیٹے کی پیداٸش
اقوام متحدہ ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق 46 صحافی بھی پانچ نومبر تک مارے جا چکے ہیں جنیوا کنونشن 1949 کے تحت صحافیوں کی حفاظت اور کام کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق حالیہ اسرائیل غزہ جنگ گزشتہ 30 سالوں کے کے تنازعات کے مقابلے میں صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک رہی ہے تاہم اسرائیل کو عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کوئی فکر نہیں
جو لوگ اب تک اس جنگ میں زندہ بچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کے لئے غزہ میں زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہاں خوراک کی کمی، پانی کی شدید قلت اور صحت اور علاج معالجے کی سہولیات ختم کر دی گئی ہیں ایک رپورٹ کے مطابق چھ نومبر تک اسرائیلی حملوں میں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں
جن میں 4100 بچے بھی شامل ہیں یعنی اوسط ہر دس منٹ میں ایک بچے کی ہلاکت ہو رہی ہے۔غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں 25,400 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔غزہ میں تقریباً 2,260 افراد لاپتہ ہیں جن میں 1,270 بچے بھی شامل ہیں ان میں سے اکثر کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے
عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی مقامی طور پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی ہے غزہ کی پٹی میں 22 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں اسرائیلی ظالمانہ فضائی حملوں کے ایک ماہ کے بعد کہا جاتا ہے کہ غزہ میں 200,000 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچایا گیا ہے یا تباہ کر دئے گئے ہیں جو کہ عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ اور فلسطینی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ نومبر تک غزہ میں تقریباً 15 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں جو سکولوں، گرجا گھروں، ہسپتالوں، اقوام متحدہ اور عوامی عمارتوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں یا جنھیں دیگر افراد نے پناہ دی ہے یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ غزہ کو بچوں اور خواتین کا قبرستان بنا دیا گیا ہے
اقوام متحدہ، فلسطینی حکام اور بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے فراہم کردہ ان اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک صہیونی اور نسل پرست ناجائز ریاست ہے جس کو برطانیہ نے اعلان بالفور کے نتیجے میں وجود بخشا تھا حالانکہ 1947 سے پہلے کے نقشوں میں سرزمین عرب پر اسرائیلی نامی ریاست کا نام و نشان بھی نہیں امریکہ، برطانیہ،فرانس،جرمنی، کینیڈا اور کچھ دیگر یورپی ممالک کے حکمرانوں کے مطابق اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے
اور عملاً امریکہ اور یورپی حکمران اسرائیلی بربریت، دہشتگردی اور وحشیانہ بمباری میں اسرائیل کو سیاسی، سفارتی اور مالی مدد فراہم کر رہے ہیں جبکہ امریکہ اور یورپ ہی کے عوام اپنی حکومتوں کی اس غلط اور انسانیت دشمن پالیسی پر کڑی تنقید کر رہے ہیں اور وہاں کے عوام کھلے عام فلسطینیوں کے تحفظ،آزادی اور حقوق کے لئے احتجاج کرتے رہے ہیں جنوبی اور لاطینی امریکہ کے ممالک، ترکی، اردن اور جنوبی افریقہ سمیت کئی افریقی ممالک نے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیکر اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کئے ہیں
باضمیر دنیا کے حکمران اور مہذب لوگ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو دہشت گرد اور انسانیت کا دشمن اور قاتل سمجھتے ہوئے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور بین الاقوامی عدالت انصاف اور انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں
عرب حکمرانوں سمیت عالم اسلام کے حکمران عملاً امریکی غلام بن چکے ہیں اور امریکی خوف اور دباو کی وجہ سے کھل کر حماس جیسی آزادی اور حریت پسند تنظیم کا ساتھ نہیں دے رہے حالانکہ یہ سرزمین انبیاء اور قبلہ اول کی آزادی کا مسئلہ ہے اور خدشہ یہی ہے کہ اگر عالم اسلام کے حکمرانوں نے کھل کر اسرائیل کے مقابلے میں حماس کی مالی اور فوجی مدد نہیں کی تو عوام ان بزدل حکمرانوں کے گریبانوں میں جلد یا بدیر ہاتھ ڈالیں گے
حماس کے آزادی پسند جنگجوؤں نے واقعی ثابت کر دیا کہ صرف غزہ کا چھوٹا سا ٹکڑا آزاد ہے باقی عرب دنیا ساری غلام ہے اور یہ بھی انہوں نے ثابت کردیا کہ ایمان کی قوت موجود ہو تو پھر ٹیکنالوجی اس جذبے کو شکست نہیں دے سکتی حماس اور اہل غزہ کے ساتھ اسرائیل کے بعد سب سے بڑا ظلم مصری ناجائز ڈکٹیٹر حکمران جنرل سیسی کررہے ہیں جنہوں نے اہل غزہ کے لئے واحد بارڈر کراسنگ رفاح کو بند کر رکھا ہے
اگر جنرل سیسی کی جگہ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ہوتی تو اسرائیل غزہ پر جارحیت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب ملکر اسرائیل کو سبق سکھا سکتے ہیں لیکن کیا کریں غلامی ان کی مجبوری بن گئی ہے البتہ امت مسلمہ اور اسلامی تحریکوں نے جس انداز سے اہل غزہ کے لئے آواز اٹھائی اور مالی تعاؤن کر رہی ہیں وہ قابل ستائش ہے
خلاصہ یہ کہ حماس جیسی چھوٹی تنظیم نے اسرائیل اور اس کی افواج کا تکبر خاک میں ملاکر اس کے غرور کو دفن کر دیا ہے اور اگر اسلامی دنیا متحد ہوئی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی اس وقت 57 اسلامی ممالک کے پاس لگ بھگ 80 لاکھ ریگولر آرمی ہے نصف سے زیادہ دنیا کے وسائل مسلمانوں کے پاس ہیں مگر پھر بھی غلام ہیں اس لئے اللہ صرف 25 ہزار حماس کے مجاہدین کی غیبی مدد کر رہا ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا