مسرت اللہ جان
اولمپک میں پاکستان کے دستے کی ناقص کارکردگی پر گذشتہ چند دنوں سے مسلسل پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور اس کے سربراہ جو سابق ریٹائرڈ جنرل ہیں کو نشانہ بنایا جارہا ہے .بہت سارے لوگوں کی نفرت تو فوج سے ویسے بھی ہے اور اگر جنرل ہو تو پھر انہیں موقع بھی ملتا ہے کہ چلو اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں گے.
یہ نہیں کہ پی او اے والے فرشتے ہیں اور ان کی پاک دامنی پر ہمیں شک نہیں لیکن پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر بات کرنے سے پہلے کھیلوں کے مختلف فیڈریشنز ‘ سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ کر کیا ررہے ہیں؟
ویسے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا بنیادی کام کیا ہے اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے. اسی کے ساتھ ساتھ فیڈریشن اور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے تبھی اس حوالے سے تصویر صاف اور واضح نظر آئے گی اور سمجھ آجائے گی کہ کون میڈل لانے کا ذمہ دار ہے اور کون سے لوگ اپنی نااہلی کو دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں؟
کسی بھی کھیل میں میڈل لانے کی ذمہ داری بنیادی طور پر کھلاڑی کی ہی ہوتی ہے لیکن کھلاڑیوں کو یہ سہولیات کسی سرکاری ادارے نے ‘ کسی فیڈریشن نے فراہم کی ہے اس کا جواب بھی نفی میں ہی ہے.
بین الاقوامی مقابلوں میں زیادہ تر کھلاڑی ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے جاتے ہیں ‘ بیشتر نئے کھلاڑی صوبوں میں کام کرنے والے ادارے ہی پیدا کرتے ہیں لیکن ان کھلاڑیوں کی پوزیشن نمایاں ہوتے ہی ڈیپارٹمنٹس انہیں تنخواہیں پر لے لیتی ہیں.
یہ کھلاڑی تنخواہیں تو لیتے ہیں اور ان کھلاڑیوں کی کارکردگی صوبے کے دیگر کھلاڑیوں کے مقابلے میں بہتر بھی ہوتی ہیں لیکن ڈیپارٹمنٹس ان کھلاڑیوں کو کس طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہیں؟
یہ بھی پڑھیں
- پاکستان سپورٹس بورڈ ‘ اٹھارھویں ترمیم کے بعد پلنے والا سفید ہاتھی
- کڑوا سچ ‘ خوشامد اور چاپلوسی
- غربت کے خاتمہ کا دعویٰاور ریاست مدینہ کے حکمرانوںکا قول و فعل
- چہ خر دا خرہ کم وی نو غوگ ئی دا پریکولے دے”
اس بار ے میں خاموشی ہی ہے ان کھلاڑیوں کو بنیادی سہولیات سپورٹس ڈائریکٹریٹ فراہم کرتی ہیں لیکن تنخواہوں کے علاوہ انہیں ڈیپارٹمنٹس کی جانب سے کچھ نہیں ملتا ‘ نہ تربیتی سیشن ‘ نہ ہی ان ڈیپارٹمنٹس کے اب وہ مقابلے ہوتے ہیں جو ایک زمانے میں کروائے جاتے تھے
جبکہ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں یہی ڈیپارٹمنٹس کے بیشتر کھلاڑی شامل ہو تے ہیں لیکن پریکٹس نہ ہونے کی وجہ سے رہ جاتے ہیں . کیا کسی ڈیپارٹمنٹ نے اپنے کھلاڑیوں کی تربیت کیلئے بین الاقوامی کوچز فراہم کئے’
پاکستان میں کھیلوں کی سہولیات فراہم کرنے کا سب سے بڑا ادارہ پاکستان سپورٹس بورڈ ہے ‘اٹھارھویں ترمیم کے بعد اس کی قانونی حیثیت کیا ہے اور اسے کس مقصد کیلئے رکھا گیا ہے؟ لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات لینے والے پی ایس بی ملازمین کی اٹھارھویں ترمیم کے بعد کارکردگی کیا ہے ؟
کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے گذشتہ دو سالوں سے صوبوں پر مسلط اس غیر قانونی ادارے کے وفاقی وزیر جنہیں صرف تبدیلی والی سرکار کی پارٹی میں آنے کے بعد وزارت دیکر خوش کیا گیا کی کارکر دگی کیا ہے اس کا سوال تو چند روز قبل کروڑوں روپے لیپس ہونیوالے فنڈز ہے جو وزارت نے وفاقی حکومت کو واپس کردئیے
کیا ان فنڈز سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت کسی بھی صوبے کے کسی بھی سنٹر میں کہیں پر کسی بھی کھیل کا کوئی کیمپ لگایا گیا؟ جواب نفی میں ہی آئیگا . سہولیات فراہم کرنے کی دعویدا ر پی ایس بی نے پورے ملک کے تمام سنٹرز میں ہر قسم کے کھیلوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے.
کرونا کے نام پر ہونیوالی اس پابندی کی زد میں کون کون خوار ہوا .کنٹیکٹ گیمز پر تو ویسے بھی پابندی تھی لیکن نان کنٹییکٹ گیمز پر کس طرح پابندی لگائی گئی یہ سوال بھی پوچھنے کی ضرورت ہے.
کھلاڑیوں سے پی ایس بی ممبرشپ فیس کے نام پر کتنی رقم وصول کررہا ہے ‘کیا ان کے کوچز کام کررہے ہیں یا پھر پرائیویٹ کوچز سرکار کے بلڈنگز میں مصروف عمل رہتے ہیں جن میں بہت سارے مال کا کچھ حصہ وفاق کو بھی ملتا ہے اور چالیس کی جگہ بیس کھلاڑی ظاہر کرکے رقم وصولی کی جارہی ہیں.
پی ایس بی نے والی بال ‘ بیڈمنٹن’ سکواش ‘ آرچری ‘ ٹیبل ٹینس ‘ باسکٹ بال سمیت کسی بھی کھیل میں کہیں پر گذشتہ دو سال میں کوئی مقابلے کروائے ؟ کوئی بھی نہیں.
اور ہاں اس دوران پی ایس بی کے ملازمین کی تنخواہیں ‘ ٹی اے ڈی اے اور میڈیکل بلز کے نام پر عوام کے ٹیکسوں کا کتنا پیسہ نکالا گیا ‘ جن کا کوئی کام ہی نہیں ‘ البتہ یہ کام خوب کیا گیا کہ کھیلوں کی سہولیات کے نام پر کمائی کا ذریعہ بھی نکالا گیا
نااہلیوں کی طویل داستان
اور ذریعہ بھی ایسا کہ پی ایس بی کے اکائونٹ میں رقم جانے کے بجائے ڈائریکٹر کے اکائونٹس میں براہ راست لاکھوں روپے ٹرانسفر کئے گئے. یہ رقم انہوں نے پی ایس بی کے اکائونٹس میں کیوں جمع نہیں کروائی ؟ سیونگ اکائونٹس میں آنیوالے اس رقم پر سود کس نے کھایا اور کتنا کھایا ‘ اور کیا یہ رقم جمع بھی کروائی گئی یا نہیں ؟
یہ الگ سوالات ہیں.. لیکن پی ایس بی کی کارکردگی کہاں پر ہے.کھلاڑی کہاں پر ہیں ‘ پیسے تو کمائے گئے اڑائے بھی گئے ‘ کبھی ری نویشن کے نام پر الماریوں کو توڑ کر باتھ رومز بنانے پر اور کبھی ان باتھ رومز کو ختم کرکے الماریاں بنانے پر
اگر کسی کو اس میں شک ہے تو صرف پشاور کے کوچنگ سنٹر میں آکر کروڑوں کے ہیر پھیر دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن آڈٹ والے وہ نہیں جنہیں نمک منڈی کھلا کر یا پھر کارخانو مارکیٹ سے تحفے دیکر ان کے منہ بند کروائے جائیں
بلکہ انٹی کرپشن ‘ نیب ‘ پولیس ‘ میڈیا اور جوڈیشری سمیت اس شعبے کے ماہر افراد اگر آڈٹ کریں تو پھر یہ چیزیں چھپ نہیں سکیں گی.
اب آتے ہیں کھیلوں کے مختلف فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز پر ‘ جو کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑی پیدا کرنے کی دعویدار ہیں ‘ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ملکی سطح کے کتنے مقابلے کتنے فیڈریشنز نے کروائے ہیں ؟
کتنے نئے کھلاڑی گذشتہ پانچ سالوں میں پیدا کئے گئے ‘ کتنے کھلاڑیوں کو سپانسر کرکے بیرون ملک تربیت کیلئے بھیجا گیا ؟ کتنی فیڈریشنز نے غیر ممالک سے اپنے کھلاڑیوں کیلئے غیر ملکی کوچز کی خدمات حاصل کیں؟
اس بارے میں سوائے چند کھیلوں کے 35 سے زائد کھیلوں کے فیڈریشن کے پاس سیاستدانوں کی طرح گز بھر کی زبانیں اور بڑی بڑی باتیں ہیں . کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ فیڈریشن پر گذشتہ تین دہائیوں سے کون لوگ مسلط ہیں ؟
کبھی باپ سرپرست اعلی ‘ تو کبھی بیٹا چیئرمین ‘ اور کبھی بیٹا صدر تو رشتہ دار دوسرے عہدوں پر تعینات ‘ ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے کی اس پالیسی کا یہی نتیجہ ہے کہ کبھی آپ کسی بھی فیڈریشن سے یہ پوچھ لیں کہ کتنی مدت سے آپ اس فیڈریشن پر مسلط ہیں ؟
تو صاحب لوگ قانونی موشگافیوں کی آڑ لیتے ہوئے ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ انسان کی عقل بھی حیران رہ جاتی ہے کہ کیسے کیسے نادر نمونے سپورٹس کے میدان میں موجود ہیں.
کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ فیڈریشنز پر مسلط کتنے افراد ایسے ہیں جنہوں نے اس کھیل سے جس میں وہ فیڈریشن سے منسلک ہیں کبھی وابستگی رہی ہو؟
کبھی کھیل کا میدان بھی نہیں دیکھا ہوگا لیکن وہ فیڈریشن اور ایسوسی ایشن کے اہم عہدوں پر مسلط ہونگے اور بڑے دھڑلے سے رقمیں بٹورنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں. کچھ لوگوں نے اپنے لئے براہ راست بین ااقوامی تنظیموں سے رابطے رکھے ہیں اور انہیں وہاں سے فنڈنگ ملتی ہے انہیں صرف فنڈنگ سے مقصد ہے کھیل جائے بھاڑ میں..۔۔۔۔۔۔
اگر اس میں بھی کسی کو شک ہو تو گذشتہ تین دہائیوں سے فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز پر مسلط کابینہ کے ارکان کے اثاثے چیک کئے جائیں کہ فیڈریشن اور ایسوسی ایشن میں آنے سے پہلے یہ لوگ کیا تھے اور اب کس طرح لاکھوں اور کروڑوں کی گاڑیو ں اور گھروں میں رہائش پذیر ہیں؟
اولمپک ایسوسی ایشن کی ذمہ داری کیا ہے ؟
اولمپک میں میڈل نہ لینے اور کم کھلاڑی بھیجنے کے سوال پر کیا ‘ اولمپک ایسوسی ایشن کی ذمہ داری کیا ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جسے جاننے کی ضرورت ہے.صوبوں میں کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کھلاڑیوں کی تربیت کریں گی اور فیڈریشنز انہیں مزید تربیت فراہم کرے گی اور پھر انہیں بین الاقوامی فورمز تک پہنچانے کی ذمہ داری سمیت متعلقہ فیڈریشن کے الحاق پاکستان اولمپک ایسوسی ایشنز کی ہے
میڈل لانے کی ذمہ داری اولمپک ایسوسی ایشن کی نہیں بلکہ ان تمام فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کی ہے جنہوں نے کھلاڑی پیدا کئے ‘ تربیت دی ‘ ہاں اولمپک ایسوسی ایشن سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کھلاڑیوں کیلئے متعلقہ فورمز تک رسائی میں کوتاہی کیوں دکھائی ؟
ہاں اگر کوئی غیر شخص جس کا کھیل سے واسطہ نہ ہو اور وہ کھیل کے میدان میں بین الاقوامی فورم تک جائے تو پھر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر سوال اٹھتا ہے . اس کی مثال حال ہی میں بیڈمنٹن فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کی ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والے واجد جو پاکستان کے نمبر ون کھلاڑی رہے ہیں اور آج کل جنرل سیکرٹری کے عہدے پر تھے وہ کوچ کی حیثیت سے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لینے گئے ‘ سوال یہ ہے کہ کیا بیڈمنٹن فیڈریشن اتنی کمزور ہے کہ ان کے پاس بین الاقوامی سطح کا کوئی کوچ نہیں ‘
یا پھر جنرل سیکرٹری کو لوگوں پر اعتماد نہیں یا پھر انہیں بھی بیرون ملک گھومنے کی بیماری ہے . اس بارے میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ نے کس طرح فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری کو کوچ کی حیثیت سے جانے دیا.
کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی میں بنیادی کردار اس وقت اٹھارھویں ترمیم کے بعد رہ جانیوالی غیر قانونی پی ایس بی سمیت متعلقہ صوبوں کے سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کا بھی ہے
سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ہاتھ پائوں پی ایس بی کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں خواہ وہ وسائل کے حوالے سے ہوں یا پھر سہولیات کے حوالے سے ‘ کیونکہ سب کچھ پی ایس بی کھا رہی ہے ‘ جہاں پرصرف مال کمائو پالیسی چل رہی ہے کھلاڑیوں کو سہولیات مل ہی نہیں ‘ فیڈریشن بھی اپنی کارکردگی پوری نہیں کررہی ‘
ایسے میں میڈل نہ لینے کی ذمہ داری صرف اولمپک ایسوسی ایشن کی نہیں بلکہ کھیلوں کی متعلقہ فیڈریشن ‘ایسوسی ایشن اور پی ایس بی پر بھی عائد ہوتی ہے کہ لاکھوں کے فنڈز لینے والے یہ لوگ آخر کر کیا رہے ہیں؟
ویسے کرونا کے باعث پوری دنیا میں کم و بیش پچاس فیصد تک کھیلوں کی سرگرمیاں کم تھی لیکن پاکستان میں یہ سرگرمیاں سو فیصد بند رہیں ان تمام عوامل کیساتھ میڈل کی توقع رکھنا بلی کے خواب میں چھچڑے دیکھنے جیسا ہی ہے۔