سید عتیق الرحمن
سوال یہ تھا کہ اگر ” وہ ” آ گئے جن کا نام لکھنا فیس بک نے ممنوعات کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے تو کیا ہو گا ؟ یوں تو ہم سب عرصے سے آزادی اظہار رائے کے علمبرداروں کے کمیونٹی سٹینڈرز سے آگاہ ہیں ۔
عراق میں حملے کے بعد الجزیرہ پر بھی انہی آزادی اظہار رائے والوں نے پابندی عائد کی تھی۔ مگر” ان ” کے بارے میں فیس بک کے سٹینڈرڈ کچھ زیادہ ہی سخت ہیں ۔
دیکھیئے افغانستان سے متعلق ہماری رائے وہی ہوتی ہے جو انٹرنیشنل میڈیا بناتا ہے۔ وہاں کے بہت سے زمینی حقائق ہمیں معلوم نہیں ہوتے ۔ صرف وہی معلوم ہوتا ہے جو بی بی سی ، وائس آف امریکہ ، روئیٹر ، اے ایف پی ، ڈی ڈبلیو ، سی این این اور الجزیرہ بتاتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر موجود مختلف پیجز یا چینلز وغیرہ ۔
اب ہم افغانستان کو اندر سے جا کر دیکھنے سے تو رہے کہ وہاں کیا چل رہا ہے ؟ ہمارا وہاں نہ تو براہ راست کوئی سورس ہے نہ نمائندہ نہ آنا جانا۔ ہم میڈیا کے توسط سے ہی معلومات حاصل کرتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں
- انسانی حقوق کا چھاج،امریکہ،چین اور پاکستان
- داستان اردو،بزبان اردو
- قرآن ہماری جان لیکن عمل سے دل پریشان
- افغانستان کی مائوں کا دکھ
دوسرا اہم ذریعہ سوشل میڈیا پر موجود وہاں کے مقامی لوگ ہیں بہت سے پیجز اور آئی ڈیز پشتو لکھاریوں کے ہیں۔ پشتو ہمیں تو کیا خود گوگل کو بھی اکثر سمجھ نہیں آتی ۔
ہماری ایک پوسٹ پر ایک افغان دوست نے کہا کہ یہ "ان ” کی حمایت ہے ۔ وہ پوسٹ میں نے احتیاطاً کہیں محفوظ بھی رکھی ہے مجھے اس میں سے ایک جملہ بتا دیں جو ان کی حمایت میں لکھا گیا ہو۔ وہ سیدھی سی بات تھی
جسے اندیشہ عجم نے بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیئے
اگر وہ سڑکیں اس نیت سے اکھاڑتے ہیں کہ یہ کافروں کی بنائی گئی ہیں ؟ یا افغان فوج کو کافر فوج کہتے ہیں جب کہ امر واقع ایسا نہیں تو وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔
اگر وہ صرف زانیوں ، شرابیوں ، اور چور اچکوں کو سزائیں دیتے ہیں تو یہ ٹھیک بات ہے ۔ مگر ” ان ” کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ خود انہی علتوں میں مبتلا ہیں اگر یہ بات سچ ہے تو پھر صورت حال مزید خراب سمجھیں ۔
جہاں تک بات ہے مداخلت کی تو افغان بھائیوں سے درخواست ہے کہ وہ حرام مداخلت اور حلال مداخلت میں خط امتیاز اور اپنی سابقہ اور موجودہ پوزیشن واضح کر دیں ۔ کیا امریکہ کی مداخلت جائز اور حلال تھی؟
ایران اور بھارت کی مداخلت پر تو آپ خاموش رہیں اور ہماری باری آئے تو مداخلت حرام ہو جائے یہ دو رنگی نہیں چلے گی ۔ جب ہمارے پڑوسی ہمارے خلاف اقدام کر سکتے ہیں تو ان کے خلاف جوابی اقدام کا ہمیں بھی حق ملنا چاہیئے ۔
حلال مداخلت اور حرام مداخلت
اب رہی یہ بات کہ ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے ؟ تو کیا امریکی اسلحہ اور جدید جنگی ساز و سامان سمیت جملہ مال غنیمت ان کے ہاتھ امریکہ کی مرضی کے بغیر محض اتفاقاً چڑھ گیا یا یہ اسے امریکی تحفہ سمجھا جائے ۔
برطانیہ کا انہیں قبول کرنے کے لیئے نرم گوشہ، روس اور چین کی پشت پناہی ، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں تاجکستان ، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ان کے روابط کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی صرف پاکستان پر انگلی اٹھاتا ہے
تو یہ اپنی ناکامی کا الزام دوسروں پر عائد کرنے والی بات ہے ۔ اس کی بھی کسی افعان بھائی کو ضرورت نہیں کہ اشرف غنی صاحب خود صرف یہی کچھ کر رہے ہیں ۔ افغانستان کی موجودہ جمہوری لیڈر شپ میں بہت سے ایسے چہرے ہیں جنہیں پناہ دینے کے سوا پاکستان نے کوئی قصور نہیں کیا ۔
آج وہ بلوچ افغانستان سے برامد ہونے کی اطلاعات ہیں جو یہاں لاپتہ افراد کہلاتے ہیں ۔
بلوچستان میں پاکستانی فوجیوں پر حملے کروانے کے لیئے افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ” وہ ” بھی افغانستان کی پیداوار ہیں جو بعد ازاں پاکستان کی طرف ایکسپورٹ کر دیئے گئے۔
کیا کسی پاکستانی نے کبھی گلہ کیا کہ افغانستان نے وہ کچھ پیدا کیا جس نے ہمارے ستر ہزار انسانوں کو قتل کروایا۔
افغان نائب صدر سے پوچھا جائے کہ سپین بولدک میں اگر پاکستان نے افغان آرمی کو ان پر حملہ کرنے سے منع کیا تھا تو بدخشاں میں کس نے منع کیا؟غزنی اور قندوز کے علاوہ افغان آرمی کی طرف سے کس کس محاذ پر مزاحمت ہوئی؟ ہر جگہ پنچائت اور ثالثی سے وہ اپنا قبضہ پھیلاتے جا رہے ہیں تو اس میں پریشانی کیسی؟
خود سپین بولدک میں تعینات افغان آرمی بھاگ کر پاکسان آن پہنچی ۔ بدخشاں سے افغان آرمی نے بھاگ کر تاجکستان میں پناہ لی ۔ قندھار کے پولیس چیف نے ڈان کو بتایا تھا کہ پولیس کے سوا ان کا مقابلہ کوئی نہیں کر رہا ۔
سب ان کے ساتھ ملتے جا رہے ہیں ۔ اب ایسے میں ہمارے پاس اس سے بہتر اور کوئی آپشن نہیں کہ انہیں تسلیم کر لیا جائے ۔ انہوں نے عالمی سامراج کے خلاف اپنی بیس سالہ طویل مزاحمت سے خود کو منوایا ہے
چھری چاقو کے زور پر انہوں نے قطر میں دفتر حاصل نہیں ۔ رہا پاکستانیوں کی جانب سے ان کے حق میں بولنے کا معاملہ تو وہ یونہی رہے گا ۔
افغانستان میں جمہوریت کے طبلچیوں سے زیادہ شریعت کے نقارچی موزوں ہیں
ہاں ہمارے اندر ان کے لیئے اب جا کر وہ ہمدردی پیدا ہو رہی ہے جس کے شائد وہ مستحق نہ ہوں ۔ گزشتہ بیس سالوں کے دوران افغانستان کی بزعم خود جمہوری قیادت کا جو رویہ اور طرز عمل پاکستان کے حوالے سے رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے لیئے ہی نہیں بلکہ دیگر تمام ہمسایوں کے لیئے بھی افغانستان میں جمہوریت کے طبلچیوں سے زیادہ شریعت کے نقارچی موزوں ہیں ۔
کم از کم امریکی حملے سے پہلے تک ان کے دور حکومت میں پاکستان کی مغربی سرحدیں تو محفوظ تھیں نہ وہاں کوئی پاکستان دشمن طاقت پاکستان کے خلاف پراکسی کھیل رہی تھی ۔ نہ کوئی ملا اٹھ کر نہار منہ پاکستان پر الزامات لگاتا تھا ۔