سید عتیق الرحمان


نمبرداری کا چھاج امریکہ کے گلے سے نکال کر چین اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہے۔ ایسے میں مغربی ذرائع ابلاغ چین میں قائم حراستی مراکز میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں ۔

یار لوگ چین کی مذمت نہ کرنے پر خدائی فوجداروں کو رگیدتے بھی خوب ہیں ۔ مگر مجال کہ پاکستان میں کسی طرف سے ایسی کوئی آواز بلند ہو جو چین کے خلاف ہو ۔ اب تازہ خبر ہی لیجیے جو کل وائس آف امریکہ کی شہہ سرخیوں میں تھی ۔ جس پر مغربی ذرائع ابلاغ نے سب سے زیادہ توجہ دی وہ وزیراعظم پاکستان کا تازہ بیان ہے۔

اسی لاکھ کارکنوں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کی صد سالہ تقریب کے موقع پر پریس بریفنگ کے دوران وزیر اعظم


یہ بھی پڑھیں 

  1. داستان اردو،بزبان اردو
  2. ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
  3. قرآن ہماری جان لیکن عمل سے دل پریشان
  4. سلطنت عثمانیہ کو جدیدیت سے متعارف کروانے والا اعلان گل خانہ کیا تھا ؟

عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان چین کے صوبہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے حوالے سے چین کے موقف کی حمایت کرتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل میڈیا میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو نظر انداز کیا جاتاہے مگر چین کے حوالے سے پروپیگنڈا کے ذریعے سے غیر مناسب رویہ اپنایا جاتا ہے۔!

اگر بات حراستی مراکز میں پھنسے انسانوں کی ہوتی تو امریکہ خود بھی اسی الزام کی ذد میں ہے ۔ جو غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کو حراستی مراکز میں رکھتا ہے اور وہاں بھی ان پناہ گزینوں کے بچوں کے ساتھ بدکاری ہوتی ہے ۔ اسی طرح چین کے حراستی مراکز سے بھی بدترین تشدد کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں ۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے پناہ گزینوں کے تقریباً بیس ہزار بچے اور بچیاں ان حراستی مراکز میں موجود ہیں ۔ وہاں بھی زیر حراست رکھے گئے بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہر نوع کی ذیادتی روا رکھی جاتی ہے اور چین کے حراستی مراکز میں بھی ۔

وزیراعظم صاحب کی طرف سے چین کے موقف کی تائید تب جرم ٹھہرتی جب وہ امریکی حراستی مراکز کے معاملے میں امریکہ کی مذمت کرتے ۔ پاکستان نے تو آج تک گوانتا ناموبے جیسے حراستی مرکز کی مذمت نہیں کی ۔

جہاں تک وزیر اعظم صاحب کا چینی حراستی مراکز کے معاملے میں چینی حکومت کا ساتھ دینے کا تعلق ہے تو اگر وزیر اعظم صاحب حکومت کی بجائے زیر حراست اویغوروں کا ساتھ دیتے تب بھی ان حراستی مراکز میں موجود قیدیوں کو کچھ فائدہ نہ ہوتا

اس سے چینی مراکز کے خلاف بیان دینے کی توقع وابستہ رکھنا ہی عبث ہے۔ دونوں یعنی چین اور امریکہ یونہی انسانوں کو سسکا سسکا کر مارتے رہیں گے ۔۔ مگر نہ کوئی مذمت کرے گا نہ سچ بولے گا ۔

چین کے ایک حراستی مرکز میں رہ کر آنے والی خواتین نے تو یہاں تک بتایا تھا کہ وہاں مامور عملے کے اراکین الیکٹرک راڈ شرمگاہ میں گھسا کر کرنٹ دیتے تھے ۔ اسی طرح ہر جگہ یہی صورت حال ہے ۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس قدر مجبور و لاچار نہ کرے ۔ پڑھ کر بھی خوف آتا ہے ۔

چین کا اسرائیل پاکستان ؟

چین سے متعلق ہمارے ہاں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ نہ تو دنیا میں آزادی کا مبلغ ہے نہ اخلاقیات اور حقوق انسانی کا چیمپئین ۔ اس کے بر عکس امریکہ انسانی حقوق ، آزادی اور مساوات کا علمبردار بننے کے باوجود اندر سے چین ہی جیسا ہے۔

ہماری حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر افغانستان تک کی مذمت نہیں کر سکتیں چہ جائیکہ چین اور امریکہ۔

جہاں تک وزیر اعظم صاحب کا چینی حراستی مراکز کے معاملے میں چینی حکومت کا ساتھ دینے کا تعلق ہے تو اگر وزیر اعظم صاحب حکومت کی بجائے زیر حراست اویغوروں کا ساتھ دیتے تب بھی ان حراستی مراکز میں موجود قیدیوں کو کچھ فائدہ نہ ہوتا ۔

وزیراعظم صاحب کے حالیہ بیان کی روشنی میں استاد وسعت اللہ خان صاحب کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ "پاکستان چین کا اسرائیل ہے ⁦” دیکھنا یہ ہو گا کہ چین بھی پاکستان کا امریکہ ہے یا نہیں؟