خالد قیوم تنولی
یاد ‛ گو پرانی ہے لیکن آج بھی دل پر نقش ہے۔ گاؤں میں ہماری آبائی چراہگاہوں میں ہر سال موسم سرما سے قبل کوہستانی چرواہوں کا ایک خاندان اپنے مویشیوں کے ریوڑ سمیت بسیرا کرتا تھا (اب کئی برسوں سے آجڑی بدلتے آ رہے ہیں)۔
اس چرواہے خاندان کا ایک فرد امیر حمزہ نامی جو کہ بہت ہنس مکھ اور باغ و بہار طبیعت کا مالک تھا‛ کو ہم نے ایک بار لینڈ سلائیڈنگ سے متاثر ہونے والے گھر کے ڈبھے (وہ پلیٹ فارم جس پر مکان کی بنیاد اٹھائی جاتی ہے) کی تعمیر کے لیے معاوضے پر بلایا۔ وہ بلا کا جفاکش تھا کیونکہ نہایت جسیم‛ وزنی اور بے ڈھنگے پتھروں کو ڈھلوانی سطح پر ہموار رکھ کر دیوار اٹھانا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ چونکہ بندہ جی دار تھا لہذا پوہ/ ماگھ کی برساتی جھڑی میں بھی وہ کام سے ناغے کا قائل نہ تھا۔ ہم اس کے اپنے کام میں انہماک اور دلچسپی سے اتنے متاثر تھے کہ برابر تعمیری سرگرمی میں اس کی مدد کے لیے حاضر رہتے۔ تاہم مدد کی نوبت کم ہی آتی تھی۔ وہ ہمیں مزے مزے کی رودادیں اور جنوں پریوں کی داستانیں بڑے دلآویز گفتاری اسلوب میں سناتا یا پھر کسی رومانوی ترنگ میں ہوتا تو لوک گیت گنگنایا کرتا۔ آواز بھی اسے قدرت نے بڑی مسحور کن ودیعت کی تھی۔ ان لوک گیتوں میں ایک لوک داستان "قینچی” (یوسف اور زلیخا) اور دوسری "سیف الملوک” تھی جس نے ہمیں اپنے سحر و طلسم میں جکڑے رکھا۔ امیر حمزہ ہر جفاکش کی طرح پیٹو بھی تھا۔ ایک وقت کا کھانا تین افراد کے برابر کھا لیتا۔ تندور کی سات/ آٹھ خمیری روٹیاں ‛ جگ بھر لسی اور ڈونگا بھر ترکاری ‛ دیسی گھی اور شکر کی تباخی پر مشتمل کھانا بھی اس کے لیے عموماً ناکافی ثابت ہوتا تاہم اس کمی کو دیگر طعامی متفرقات سے پورا کر لیا جاتا تھا۔

”خان بابا ۔۔۔ پھول وہی دیتے ہیں جنھیں دل درکار نہ ہو۔“

ایک دانشورانہ نوعیت کی ملیح سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر مستقل براجمان رہتی۔ ہم نے ایک بار پوچھ لیا : "امیرا ! تو ہر ویلے ہسدا کیوں رہنا ایں ؟”
وہ ہنس کر بولا : "کیرتھا (مالک) ! مڑا مونہہ ای ایجا اے۔”
اس نے پھر بغیر مسکرائے وضاحت کی کہ ‛ اس کی صورت اپنی ماں سے ملتی ہے جو ہر دم لبّوں پہ مسکان سجائے رکھتی تھی اور جب امیر حمزہ صرف تین برس کا تھا تو وہ پانچویں بچے کو جنم دینے کے ہنگام دنیا سے چل بسی تھی۔ امیر حمزہ کے بقول اسے اپنی ماں کا لمس ‛ وجودی مہک اور مسکان تینوں یاد ہیں۔ اس کے بعد ہم اس کی دائمی مسکراہٹ کا دل سے احترام کرنے لگے۔
اس کی عمر یہی کوئی پچیس برس رہی ہو گی۔ ۔ ۔ ایک دن بارش بہت تیز برس رہی تھی ‛ ہم نے اسے کام روک دینے پر مجبور کیا اور اس کے لیے گندم کے نشاستے کے حلوے سمیت بکری کے دودھ ‛ گڑ اور تیز پتی والی کڑک چائے بنوائی۔ ٹرے تھامے جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا وہ آنکھیں موندے "قینچی” کے بول مدہم سروں کے ساتھ گنگنا رہا تھا‛ ہم ٹرے اٹھائے کھڑے رہے تا وقت کہ گیت تھم جائے۔
آنسوؤں کی لڑیاں گالوں پر لڑھک کر سیاہ داڑھی میں گم ہو رہی تھیں۔ ۔ ۔ اور ہم مبہوت کھڑے دیکھتے گئے۔ ایسا جذب کا عالم پہلے نہ دیکھا تھا۔
دفعتاً گویا کائنات کا رکا ہوا نظام متحرک ہو جائے ‛ اس نے دائیں ہاتھ کی پشت سے آنکھیں پونچھیں ۔۔۔ اور اپنی اذلی مسکان کے ساتھ ہمیں دیکھ کر جھینپ سا گیا۔ ہم نے براہِ راست پوچھا : "امیرا ! تُداں عشق تے نئیں ہویا ؟”
بندہ سچا اور کھرا تھا ‛ بولا : "ترے سالاں توں عشق دا بیمار آں ۔”
ہم نے اگلا سوال پوچھا : "کوئی فوٹو شوٹو اے اُس دی ؟”
اس نے سر کو نفی میں جنبش دی۔
ہم نے کہا : "یہ کام اتنا ضروری نہیں ‛ ویسے بھی برسات کے دن ہیں ‛ ہو آؤ اس سے مل کر ۔۔۔ سنا ہے عشق کی قضا نہیں ہوتی۔”
اگلے دن وہ واقعی نہیں آیا ۔۔۔ اور وہاں بھی نہ پہنچ سکا جہاں اس کی محبوب صورت کا بسیرا تھا ‛ حویلیاں کے پُل سے جو بس نیچے ندی میں گری ‛ اس کے مسافروں میں ایک امیر حمزہ بھی تھا جسے اجل نے عدم آباد کی راہ دکھا دی۔ہم نے سنا تو لگا جیسے قینچی کلیجے میں کُھب گئی ہو۔



خالد قیوم تنولی خطہ شمال کے اردو اور ہندکو ادب کا شناسا چہرہ،جو لطافت و حساسیت سے جذبہ سے لبریز تحاریر کے زریعے معاشرتی پہلوٶں کو اجاگر کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے