آزادی ڈیسک
پاکستان میں امریکی فوج کو اڈے فراہم کرنے کے حوالے سے قیاس آرائیاں زور پکڑ گئی ہیں ۔جبکہ افغان طالبان کی جانب سے باقاعدہ ردعمل سامنے آگیا ہے ۔جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک کی جانب سے ایسا کوئی بھی قدم تاریخی غلطی ہوگی
صحافی سید طلعت حسین نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر جاری ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایس آئی چیف کی میزبانی میں دور روز قبل ہونے والے اجلاس میں سیاسی قیادت کو بریفنگ دی گئی ۔یہ وزیر اعظم یا سیاسی قیادت کا دورہ نہ تھا بلکہ انہیں اب تک ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی
واضح رہے کہ یہ معاملہ اس وقت میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بنا جب چند روز قبل امریکی عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان امریکہ کی فضائی اور زمینی مدد جاری رکھے گا۔
اگرچہ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے وضاحت بھی جاری کی گئی کہ امریکہ کو پاکستان میں فضائی اڈے دینے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں اور اس طرح کی کوئی تجویز بھی زیر غور نہیں اس لئے ضروری کے اس معاملے میں غیر محتاط اور بے بنیاد افواہ سازی سے ہر ممکن گریز کیا جائے
یہ بھی پڑھیں
افغانستان لڑکیوں کے سکول میں بم دھماکہ 30 افراد جاں بحق درجنوں زخمی
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا عمل باقاعدہ طور پر شروع
افغانستان سے مجوزہ امریکی انخلا پر بھارت پریشان
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فضائی اور زمینی مواصلات تعاون کا طریقہ کار 2001 سے موجود ہے ۔اس سلسلے میں کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا جارہا
واضح رہے کہ 2001 میں افغانستان پر اقوام متحدہ کی چھتری تلے اور نیٹو کے ہمراہ مل کر کئے جانے والے زیادہ تر امریکی ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے کئے گئے تھے
کیوں کہ اس معاہدے کے تحت شمسی ایئر بیس امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا ،جو بعدازاں فاٹا میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد بند کردیا گیا تھا
جبکہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان اس وقت ان امریکی اڈوں اور لاجسٹک راہداری کے خلاف چلنے والی تحریک کے سرخیل ہوا کرتے تھے اور انہیں اس بات پر سخت رنج ہوا کرتا تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر ہونے والی قتل و غارت کیلئے سامان پاکستان کے راستے ہو کر پہنچتا ہے
اس وقت انہوں نے اعلان بھی کیا تھا کہ اگر انہیں حکومت ملی تو پاکستان کو امریکہ کی غلامی سے نکالنے کیلئے جدوجہد کریں گے اور پاکستان میں موجود امریکہ کے سہولت کاری کے مراکز کو بند کروا دیں گے
اگرچہ یہ تنازعہ ملکی سطح پر اس وقت زیادہ موضوع بحث بنا جب فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے یہ خبر شائع کی کہ امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی مدد کیلئے اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے
جبکہ منگل کے روز فلسطین کے معاملے پر ایوان بالا میں اپنی تقریر کے دوران واضح طور اس بات کی نفی کی کہ امریکہ کو افغانستان کی سرزمین پر فضائی آپریشن کیلئے کوئی فضائی اڈہ دیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا ماضی کو بھول جائیں اور میں قوم کو گواہی دیتا ہوں کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان میں امریکہ کو کوئی اڈہ نہیں دیا جائے گا
دوسری جانب افغان طالبان نے ان خبروں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ کسی بھی ملک کی جانب سے اپنی سرزمین کی استعمال کی اجازت دینا تاریخی غلطی ہوگی
واضح رہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو امریکہ میں ہونے والے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور افغانستان کی طالبان حکومت کو اسامہ بن لادن کو ملک بدر کرنے اور واقعہ کے ذمہ داروں کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔تاہم طالبان حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ کیاگیا کہ امریکہ اپنے الزامات کے ثبوت افغان عدالتوں میں پیش کرے
اگر تو یہ الزامات ثابت ہوگئے تو وہ واقعہ میں ملوث ملزمان کو خود سزا دیں گے ۔تاہم امریکہ جس نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا یہ مطالبہ رد کرتے ہوئے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کردیا
اور چند ہفتوں میں ہی طالبان قیادت منظر عام سے غائب ہوگئی جبکہ اس امریکی فضائی بمباری کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے گئے
جبکہ طالبان کے امیر ملامحمد کا چند سال قبل افغانستان میں انتقال کرنے کا اعلان کیا گیا اور القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو 2 مئی 2011 کو امریکہ نے ایک فوجی آپریشن کے دوران پاکستان کے شہر ایبٹ آباد مار دینے کا دعویٰ کیا ۔
افغانستان پر امریکی اور اس کے اتحادیوں کے حملوں کے آغاز میں پاکسaتان میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کیخلاف تشکیل دئئے جانے والے عالمی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
اور افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ کی فوجی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو استعمال کیا گیا ۔
بعدازاں افغان مہم میں پاکستان کی شمولیت کے ردعمل میں تحریک طالبان پاکستان اور کئی ایسی شدت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے افغان سرحد سے منسلک فاٹا کے علاقوں پر اپنا اثر رسوخ قائم کرتے ہوئے پورے ملک میں دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کردیا
جس کے نتیجے میں 8 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکاروں سمیت 70 ہزار کے قریب پاکستانی شہری لقمہ اجل بن گئے ۔اور اربوں روپے کا معاشی نقصان بھی ہوا ۔
تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف بلاخر پاکستانی فوج کو آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کا آغاز کرنا پڑا ،جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں سے لاکھوں افراد اندرون ملک عارضی پناہ گاہوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے ۔
اور ہزاروں جانوں کی قربانیوں کی بعد فاٹا اور ملک کے دیگر علاقوں سے دہشت گرد قوتوں کا خاتمہ ممکن ہوسکا ۔
دوسری جانب گذشتہ سال قطر میں ہونے والے امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک معاہدے کے تحت امریکہ نے رواں سال افغانستان سے تمام غیرملکی فوجوں کے انخلاء کا اعلان کیا تھا
جبکہ حال ہی میں امریکی صدارت پر فائز ہونے والے جوبائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک افغانستان میں موجود آخری ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں کو بھی نکال لیا جائے گا۔باوجویکہ افغانستان کے زیادہ ترعلاقے عملاً طالبان کے زیر کنٹرول ہیں ،حالیہ مہینوں کے دوران افغانستان میں تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔