جبران شنوار ی
لنڈی کوتل
افغانستان میں طالبان کی موجودگی تو امریکی قبضے کےدوتین سالوں کے اندر ہی ظاہر ہونا شروع ہوچکی تھی ،جو اگلے تقریباً 18 سال افغان منظر نامے پر ظاہر ہو کر غائب ہوتے رہے ،ممکنہ طور پر اپنی حکمت عملی کے تحت انہوں نے بڑے شہروں میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے باوجود خود کو ممکنہ حد تک خفیہ رکھا البتہ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں طالبان کی موجودگی غالب حیثیت میں موجود رہی
تاوقتیکہ افغان طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ معاہدے کے نتیجے میں جب افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلاء کا عمل شروع ہوا تو افغان منظرنامے پر طالبان کی واپسی کا عمل بھی تیز ہوگیا ،اور 31 اگست جو کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا آخری دن مقرر ہے اس سے قبل ہی طالبان نے محض 10 روز میں کابل سمیت پورے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔

طالبان کی واپسی اور افغانستان اس وقت پوری دنیا کے میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی نجی و سیاسی محافل کا گرما گرم موضوع ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان اور افغانستان چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہے ہیں ۔
افغان جہاد سےطالبان کی آمد اور امریکی قبضے سے طالبان کی واپسی تک کی سیاست و معاملات میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم رہے ہیں ۔البتہ پاکستان میں سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں روزاول سے دو متضاد رکھتی رہی ہیں ،
بالخصوص افغان جہاد اور طالبان مزاحمت کے دوران پاکستانی سیاست میں موجود تفریق واضح طور پر دکھائی دیتی رہی ہے اور اب بھی دکھائی دے رہی ہے
یہ بھی پڑھیں
- طورخم پر طالبان کنٹرول کے بعد تجارتی سرگرمیاں تیز ہوگئیں ،44 پاکستانیوںکی وطن واپسی
- کابل کے ایک تاجرکا آنکھوں دیکھا حال،طالبان کی آمدکا سنا تو ہر طرف خوف پھیل گیا ،لیکن جو مناظر دیکھے حیران کن تھے
- جنرل شیرمحمد کریمی ،سیاسی مداخلت،اقرباپروری اور کرپشن افغان فوج کی شکست کا سبب بنی
- داعش خراساںطالبان ،پاکستان اور پورے خطے کیلئے نیا خطرہ جسے امریکہ نے پروان چڑھایا
افغان حالات پر عوامی نیشنل پارٹی کا موقف
گذشتہ دو روز میں افغان سرحد سے جڑے ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے سیاسی اجتماعات ہوئے ،جن میں دونوں جماعتوں کے سیاسی قائدین نے افغان صورتحال پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور پارلیمانی سردار حسین بابک نے کہا افغان سرزمین پر امن کے خواہاں ہیں ،اگر 20 روز قبل وہاں جہاد و قتال ناجائز تھا تو اب جائز کیسے ہوگیا ؟ان کا کہنا تھاسوال ضرور بنتا ہے کہ اپنے ملک سے ہزاروں شہریوں کیوں فرار ہونا چاہتے ہیں ۔
ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سردار حسین بابک نے کہا کہ دہشت گردی اور آپریشن کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کے نہ صرف مشران اور مساجد شہید ہوئیں بلکہ ان کا کاروبار، ان کی تجارت اور نوجوانوں کا مستقبل بھی برباد ہوا
انہوں نے کہا کہ اے این پی عدم تشدد اور امن کی علمبردار جماعت ہے اور پورے خطے میں امن اور ترقی چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں اور تجارتی راستوں کی بندش پختون قوم کے خلاف سازش ہے ان تجارتی راستوں کو کھلا رکھا جائے اور آنے جانے میں لوگوں کے لئے مشکلات پیدا نہ کی جائیں تاکہ اس خطے کے پشتون آسودہ حال ہوکر پرسکون زندگی گزار سکیں
اور پھر کسی پشتون کو بیرون ملک مزدوری کے لئے جانا نہیں پڑیگا سردار حسین بابک نے کہا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں انضمام تو ہوا تاہم قبائلی عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوسکے ابھی تک ضم اضلاع کو این ایف سی میں تین فیصد حصہ دیا گیا اور نہ ہی ایک سو دس ہزار روپوں میں سے کوئی بڑے ترقیاتی کام ہوسکے جو کہ تحریک انصاف کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی نااہلی اور کمزوری ہے
انہوں نے کہا اے این پی مطالبہ کرتی ہے کہ پڑوسی ممالک سے متعلق اور دیگر تمام اہم فیصلے پارلیمنٹ کی فلور پر ہونا چاہئے
افغانستان امارت اسلامیہ دنیا کیلئے رول ماڈل بنے گی ،پاکستان میں شریعت نافذ کرینگے ،جماعت اسلامی
جبکہ اسی علاقے میں جماعت اسلامی کا بھی ورکرز کنونشن منعقد ہوا جس میں جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بختیار معانی نے خطاب میں عمران حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرکے منافقت کررہے ہیں ،افغانستان میں اسلامی نظام حکومت کے حامی ہیں
ان کا کہنا تھا افغانستان ایک بار پھر عملی طور پر عالمی طاقتوں کا قبرستان ثابت ہوچکا ہے ۔جہاں پہلے برطانیہ پھر روس اور اب امریکا اور اس کے اتحادی اپنے تمام تر لائو لشکر اور ٹیکنالوجی کے ساتھ شکست فاش سے دوچار ہوچکے ہیں

بختیارمعانی نے 80 ویں یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاپاکستان کے تعاون سے افغانستان میں پہلے روس اور اب امریکہ اور نیٹو کو شکست ہوئی ۔اب افغانستان میں اسلامی شریعت عملی طور پر نافذ ہوگی اور پوری دنیا کیلئے ایک رول ماڈل ثابت ہوگی
انہوں نےکہا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے اسلامی آئین کی روشنی میں پرامن جدوجہد کے نتیجے میں اسلامی شریعت نافذ کریگی اور یہاں پاکستان میں بندوق اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑیگی تاہم انہوں نے کہا کہ مقتدر قوتیں اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں سیکولر اور کرپٹ جماعتوں کی حمایت کرنا چھوڑ دیں
عمران خان جس ٹیم کیساتھ ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں وہ صرف دھوکہ ہے ،بختیار معانی
بختیار معانی نے کہا کہ عمران خان جس شیخ رشید کو چپڑاسی بھرتی کرنے کے روادار نہیں تھے، ایم کیو ایم کو دہشت گرد سمجھتے تھے اور چوہدری برادران کو پنجاب کے ڈاکو کہا کرتے تھے آج وہی سارے لوگ عمران خان کے ارد گرد جمع ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے ذریعے ریاست مدینہ قائم کرنا خام خیالی اور قوم کے ساتھ دھوکہ ہے
انہوں نےکہا کہ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ تسلیم کر چکے ہیں کہ امریکی افواج کو افغانستان میں بد ترین اور شرمناک شکست ہوئی اس لئے اگر یہاں کی قوم پرست جماعتیں امریکہ اور نیٹو افواج کی مجاہدین کے ہاتھوں شکست کو امریکہ کی حکمت عملی سمجھتے ہیں تو وہ اپنے اذہان اور دماغوں کا علاج کریں
بختیار معانی نے کہا کہ پاکستان کے آئین کو اسلامی سانچے میں ڈالنے کے لئے اکابرین جماعت کا کردار رہا ہے اس لئے اب کسی حکمران کے لئے ممکن نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کریں