سید عتیق الرحمن


طالبوں کے بڑھتے اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے افغان حکومت نے توپوں کا رخ ان سے ہٹا کر پاکستان کی طرف کر رکھا ہے ایسے میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کس رخ پر جائیں گے جان لینا چاہیئے ۔

چین میں طالبان قیادت نے افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی ہے ۔ حالانکہ یہ ذمہ داری اشرف غنی کی کابل حکومت کی ہے کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دے مگر انہوں نے اپنی اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی ۔

افغان حکومت نے انڈیا کے ایماء پر بلوچوں اور پشتون قبائل کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا ۔
جب کہ طالبان ایسا نہ ہونے کی ضمانت دے رہے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس کی حمایت کریں ۔

اصولی طور پر ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ اگر کوئی ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے یا پاکستان میں فساد کرتا ہے تو ہم اس کے مخالف کی حمایت کریں ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم چپ کر کے بیٹھے رہیں اور پڑوسی ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپتا رہے ۔

یہ بھی پڑھیں :افغانستان کی مائوں کا دکھ

جہاں تک افغانستان میں پاکستانی مداخلت کے پیش کردہ ثبوتوں کا تعلق ہے تو یہ ہنوز ثابت نہیں ہوا کہ وہ لوگ جن کے شناختی کارڈ جاری ہوئے وہ پاکستانی تھے بھی یا نہیں ۔ خود میں ایسے کئی افغانی بھائیوں کو جانتا ہوں جن کے پاس پاکستانی شناختی دستاویزات موجود ہیں

انہی دستاویزات پر وہ یہاں جائیدادوں کے مالک بنے ہوئے ہیں ۔ ایک نہیں ہزاروں بلکہ ان کی تعداد لاکھوں میں بھی ہو سکتی ہے ۔ کم و بیش کے پی کے کے تمام اضلاع میں افغانستان سے آنے والے موجود ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں :ان کے آنے کی خبر اور سوشل میڈیا کے معیارات

ان میں سے بہت سے یہاں کی شناختی دستاویزات بنوا چکے ہیں ۔ انہی میں سے اگر کوئی جا کر افغانستان میں لڑتا ہے تو اس کا مجرم پاکستان ہر گز نہیں ۔

جہاں تک طلبہ یا افغان حکومت کا تعلق ہے تو ان کی آپس کی لڑائی میں ہم فریق نہ بھی ہوں تب بھی ہمیں اچھا ہمسایہ درکار ہے ۔ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ ہمسایہ ہمارے لییے مسائل کا باعث نہ بنے ۔

یہ بھی پڑھیں :انسانی حقوق کا چھاج،امریکہ،چین اور پاکستان

افغانستان جہاں طالبان ،وارلارڈز اور جنگ کے سوا اور بھی دنیائیں‌ آباد ہیں‌

اب جب کہ طالبان نے اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے اس لیئے عالمی ضامن انہی سے براہ راست عالمی امن کی ضمانت لے رہے ہیں جس پر تشویش کی ہر گز ضرورت نہیں ۔ اگر کابل حکومت ہی افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف نہ استعمال کرنے کی ذمہ داری ادا کر دیتی تو بھی اس کی حمایت کا جواز پیدا ہو جاتامگر اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں

افغانستان سے آنے والی اطلاعات سے یوں لگتا ہے کہ امریکہ اور غنی حکومت کا انخلاء ایک ساتھ ہی ہو جائے گا ۔ یہ چونکہ افغانستان کا اندرونی جھگڑا ہے ۔ اس پر ہمیں کچھ نہیں کہنا جس دیئے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا ۔

ادھر چند روز سے قندہار کے علاقے سپین بولدک میں ایک سابق افغان پولیس اہلکار نذر محمد عرف خاشہ زوان نامی ایک فنکار کے قتل پر کچھ لوگ دل گرفتہ ہیں ۔ یہ سال افغانستان میں گزشتہ سالوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ثابت ہوا ہے ۔

اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ گیارہ سالہ اعدادو شمار کے مطابق 2009 سے اب تک کل تین ہزار غیر ملکی فوجی مختلف حملوں میں مرے ۔ جب کہ افغانستان کی آرمڈ فورسز کے ساٹھ ہزار اہلکار اور ایک لاکھ گیارہ ہزار دیگر افغانی مارے گئے ۔

خاشہ زوان بھی انہی میں سے ایک تھے ۔ مگر فنکار ہونے کے ناطے انہیں وہ پسماندگان میسر آ گئے ہیں جو ٹوئٹر پر اس کی مذمت کر رہے ہیں ۔ جب کہ مرنے والے ایک لاکھ گیارہ ہزار افغان ابھی تک ان نوحہ خوانوں کے منتظر ہیں جو ان کے قتل ناحق پر لب کشائی کریں۔

اگرچہ طلبہ نے فنکار کے قتل کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے مگر ان مقتولوں کا کیا ہو گا جو فنکار نہیں تھے؟