عتیق الرحمن


کابل ائیرپورٹ کے قریب  ڈرون حملے میں جنہیں امریکہ نے دہشت گرد کہہ کر مارا وہ امریکہ کے اتحادی لوگ تھے ۔ امریکہ نے میزائل مارنے کے بعد کہا کہ ہم نے خراسانی گروہ کا ایک دہشت گرد اس وقت مار دیا جب وہ بارود سے بھری گاڑی ایئرپورٹ پر لا کر خود کش دھماکہ کرنا چاہتا تھا ۔ ادھر کابل سے ہی مقامی ذرائع نے کنفرم کیا کہ ماری گئی فیملی دہشت گرد نہیں تھی ۔ وہ نیٹو فورسز کے ساتھ کام کرنے والے لوگ اور ان کے بچے تھے۔

اس کی تصدیق کابل میں موجود متعدد لوگ کر چکے ہیں ۔ اس لیئے اب اس بات میں کوئی اشتباہ نہیں رہا کہ امریکہ داعش خراسان بنانا چاہتا ہے ۔ مرنے والے ایک شخص کی کل شادی تھی ۔ دو معصوم بچے بھی اپنے خاندان سمیت مارے گئے۔

امریکہ سے کون حساب لے گا آپ جسے مار رہے ہیں وہ مجرم بھی ہیں یا نہیں؟

اگر کسی نے یہ حساب لینے کی کوشش کی تو داعش خراساں کے نام پر ایک نیا اسامہ کھڑا کر دیا جائے گا ۔ اور اسی بہانے امریکہ افغانستان و پاکستان پر مزید حملے بھی شروع کر سکتا ہے۔ معلوم نہیں ننگر ہارپر امریکی حملے میں بھی بے گناہ ہی مارے گئے تھے یا وہ دہشت گرد تھے ۔


یہ بھی پڑھیں


البتہ کابل حملے میں مارے جانے والوں کا داعش سے تعلق نہیں تھا ۔ یہ سوال بھی جواب چاہتا ہے کہ جمعرات کی شام ایئرپورٹ پر مرنے والے پونے دو سو لوگوں کی موت دھماکے سے ہوئی تھی یا وہ بھی امریکیوں کی فائرنگ سے مارے گئے ۔

سچ کہوں تو امریکہ یہاں دہشت گردی ختم کرنے نہیں پھیلانے آیا ہے ۔ اگرچہ ہمارے بعض افغان بھائی انڈین اور امریکی میڈیا کے زیر اثر پاکستان پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کا کردار بہت مثبت اور تعمیری رہا ہے ۔ طالبان کے سارے راہنما جو کبھی سامنے نہیں آئے آج قندھار میں جمع ہیں ۔

کہا گیا کہ یہ روپوش لوگ آئی ایس آئی اور پاکستان کی تحویل میں ہیں لیکن وہ لوگ کابل اور قندھار سے نکل کر آ رہے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ امریکی حملوں میں مارے جا چکے ہیں اب صرف ان کا نام استعمال ہو رہا ہے مگر اب وہ قندھار سے برآمد ہو چکے ہیں اس لیئے افغان بھائی اب گیئر تبدیل کر لیں ۔

افغان معاملات اور 92 کا ورلڈ کپ

جہاں تک تعلق افغانستان کے اندر حالیہ تبدیلیوں پر پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو بخدا یہ کردار اتنا ہی ہے جتنا بانوے کا ورلڈ کپ پاکستان کو جتوانے میں قائد قلت کا تھا ۔

ہمیں تو اچھی طرح یاد ہے کہ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کسی شمار قطار میں نہیں تھا پوائنٹس ٹیبل پر ویسٹ انڈیز اور سائوتھ افریقہ پاکستان سے آگے ہونے کے باوجود اتفاقاً ہار کر باہر ہو گئے تو پاکستان اتفاقا لڑھک کر سیمی فائنل میں جا پہنچا ۔اور دوسری ٹیموں کی کوتاہیوں نے اتفاقاً ورلڈ کپ کپتان کی جھولی میں لا پھینکا ۔

آج تیس سال بعد افغانستان کی تبدیلیوں نے بھی وہی ماحول پیدا کر دیا ہے ۔ پکا ہوا پھل کپتان کی جھولی میں آن گرا ہے وگرنہ کپتان صاحب کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔ہوا یوں کہ باقی سب ممالک افغانستان سے اپنا دامن سمیٹ کر چل دیئے اور پاکستان میدان میں متحرک اور موجود رہا ۔

اشرف غنی سے لیکر جنرل ہیبت اللہ تک طالبان کے سب دشمن افغانستان سے بھاگ گئے مگر پاکستانی سفارت خانہ فعال رہا ۔ دنیا کے پاس طالبان ذدہ افغانستان سے رابطے کے لیئے صرف پاکستان یا قطر ہی کا آپشن تھا اسی لیئے جو بائیڈن کے علاوہ سب ممالک کے سربراہان نے کال کر کے پاکستان کے وزیر اعظم سے بات کی ۔

حالانکہ عام حالات میں تو وہ منہ بھی نہ لگاتے ۔ ہم تو اس بات پر بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ چلیں جو بائیڈن نہ سہی انجیلا مرکل ، پیوٹن ، اردگان اور شی جن پنگ وغیرہ جیسے عالمی راہنمائوں کی فون کالز آئیں ہے ۔

اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ فون کرنے والوں نے آئندہ بندے دے پتر بن کر رہنے کی نصیحت کی ہو مگر کال تو کی نا ! ہمارے لیئے تو یہی بہت ہے۔

جہاں تک تعلق ہے آئی ایس آئی کا تو ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت افغانستان کی سابقہ حکومتوں نے انٹر نیشنل کمیونٹی کے سامنے کبھی نہیں لایا جو تصدیق شدہ ہو ۔ سب فرضی کہانیاں تھیں ۔

انڈیا نے یہ جھوٹ گھڑنے کے لیئے جعلی نیوز ایجنسیاں بنا رکھی تھیں اور اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان پر دھرنے کی مکروہ کوشش کی گئی۔ مگر ہوا وہی جو خدا اور امریکہ نے چاہا تھا ۔ خدا نے بھارت کے مقدر میں رسوائی لکھ رکھی تھی اس کا وسیلہ افغانستان کے لوگ بنے ہمارا کوئی قصور نہیں تھا ۔

 

یہ الگ بات ہے کہ انڈین چینلز پر کف اڑاتے پاکستان دشمنوں کے مختلف مقامات سے دھواں اور منہ سے چیخیں سن کر سکون ملتا ہے کہ چلو اچھا ہوا ہمارے وسائل بھی بچ گئے اور انڈیا کی رسوائی کا سامان بھی بہم ہو گیا

افغانستان سے امریکی انخلاء مکمل ہوتے ہی پاکستان ایک ایسی جنگ جیت جائے گا جو اس نے لڑی ہی نہیں ۔ ستم ظریفی دیکھیئے یہ جنگ ہارنے والا انڈیا بھی جنگ میں شرکت سے پہلے ہی ہار تسلیم کر کے واپس چلا گیا۔

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اب اگر وہ بدمعاش ہے بھی تو بھی ویسا نہیں جیسا بیس سال پہلے تھا امریکہ کی موجودہ حالت اس بدمعاش کی طرح ہے جسے محلے والے پکڑ کر ننگا کر لیتے ہیں ۔ بدمعاش تو وہ پھر بھی رہتا ہے مگر اس کی چال میں فرق ضرور آ چکا ہے۔ اس رسوائی کا امریکہ جاتے جاتے جو بدلہ دے کر جا رہا ہے ہماری دعا ہے کہ اس کے نتیجے میں مزید تباہی نہ پھیلے۔