راحت ملک

کوئٹہ


افغانستان کی صورتحال ہنوز گھمبیر اور الجھی ہوئی ہے۔ حکومتی تشکیل میں تاخیر کا سبب امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے مطالبے سے زیادہ داخلی سیاسی تضادات کی عکاسی ہے۔طالبان کی صفوں میں بھی اتفاق رائے کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے

قندھار میں طالبان کی مرکزی شورای یا قیادت نے 12 رکنی اعلی اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جو افغانستان کی مقتدر اعلیٰ ہوگی۔افغان آئین عملاء منسوخ ہوچکا ہے لہذا مستقبل کے تمام سیاسی حکومتی امور معاملات کی سمت کا تعین طالبان کی 12 رکنی کمیٹی کرے گی۔

اطلاعات ہیں طالبان قیادت ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو شامل اقتدار کرنے کی بجاے تمام قومیتوں نسل لسانی مذھبی حلقوں سے اپنی پسند کے افراد پر مشتمل کابل میں حکومت بنانے کا فیصلہ کرچکی ہے جس میں سابقہ حکومت میں شامل افراد کو شریک نہیں کیا جائے گا۔

سابق صدر حامد کرزئی، سابق اہم عہدیدارڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمتیار کو کابینہ یا مرکزی حکومت میں شریک نہیں کیا جارہا اس اطلاع کے پس منظر میں افغانستان میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل مشمولہ حکومت کے قیام کا فارمولا تحلیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے


یہ بھی پڑھیں


افغانستان کے ذریعے خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کے خدشات بڑھ رہے ہیں افغان عوام کی اکثریت جنگجوئی سے گریز چاھتی ہے لیکن انہیں سیاسی مفاہمت کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے لوگ بڑی تعداد میں ملک چھوڑ رہے ہیں

چمن بارڈرسے سینکڑوں افغان مہاجرین پاکستان آرہے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں ہورہا۔ سفری دستاویزات کے بغیر بے شمار افراد کوئٹہ و دیگر اضلاع کا رخ کررہے ہیں ۔ ہزارہ قبیلہ کے چار افراد کو کوئٹہ پہنچانے کے لیے ٹیکسی ڈرائیور حضرات 25000 روپے جبکہ دیگر سے 16 تا 18 ہزار روپے کرایہ وصول کررہے ہیں

چمن بارڈر سے مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد

اس وقت ہزارہ ٹاون بروری روڈ کوئٹہ کی مساجد و امام بارگاہ میں کئی مہاجر خاندان پناہ لے چکے ہیں ۔ انسانی حقوق کمیشن کے ارکان تفصیلی اعداد وشمار جمع کررہے ہیں ۔پاک افغان سرحد کے مختلف مقامات سے افغان عوام پاکستانی حدود میں پناہ لے رہے ہیں ۔

طالبان قیادت نے ماضی کی طرح قندھار ہی سے امور ٍ مملکت کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے 12 رکنی کے ارکان کے ناموں کا اعلان دو روز تک متوقع ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ رہبر کمیٹی ہی امیر المومنین کی مشاورت کرے گی طالبان ماضی کی اپنی اسلامی امارت کے تصورات سے قریب قریب نئی حکومتی پالیسی پر کاربند رہینگے۔

یہ معاملات جہاں ان کے اندرونی اتحاد کی ضرورت ہیں تو وہیں عالمی قبولیت کے لیے سد راہ،طالبان قیادت اسی مخمصے میں الجھی ہے جو حکومت سازی میں رکارٹ محسوس ہورہی ہے علاوہ ازیں طالبان کی اول درجہ قیادت میں شامل کئی رہنما تاحال ممکنہ طور پر عدم تحفظ کے خدشات کا شکار ہیں ۔ وہ منظر عام پر نہیں آرہے

ٹوٹتے بنتے قیاس

جس سے افغان میں حکومت سازی کے حوالے سے معاملات تاخیر کا شکار نظر آرہے ہیں ،البتہ گذشتہ روز طالبان کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ اگلے تین روز میں حکومت کا اعلان کردیں گے ۔اگرچہ کچھ عالمی ذرائع ابلاغ طالبان حکومت کے ممکنہ خدوخال کے بارے میں قیاس آرائیاں کررہے ہیں تاہم جب تک حکومت کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوجاتا اس وقت تک تمام تر اندازے اور قیاس بے معنی ہیں

دوسرا شاید طالبان قیادت مزاحمت کے آخری گڑھ یعنی پنج شیر کے معاملے کو بھی کسی ایک نکتہ پر پہنچا کر حکومت سازی کی طرف جانے کے خواہاں نظر آتی ہے ،جہاں اس وقت بھی مزاحمت جاری ہے اور دونوں اطراف سے بھاری جانی نقصانات کے دعوے کیئے جارہے ہیں