سید عتیق
ظاہر شاہ 1933 سے 1973ء تک چالیس سال تک افغانستان کا آخری بادشاہ تھا ۔ 1973ء میں جب وہ اٹلی کے دورے پر گیا تو اس کے قریبی ساتھی چچا زاد بھائی اور بہنوئی سردار دائود خان نے فوج کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ظاہر شاہ کو جلاوطن کر دیا ۔ سردار دائود قبل ازیں ظاہر شاہ کے دور میں 1953 سے 1963ء تک افغانستان کا وزیر اعظم رہ چکا تھا مگر ظاہر شاہ نے ایک قانون کے ذریعے اپنے خاندان کے لوگوں کو حکومتی عہدے دینے پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے سردار دائود نے بغاوت کر کے اقتدار حاصل کر لیا۔

سردار دائود نے 17 جولائی 1973ء کو بادشاہ کا عہدہ ختم کر کے کرسی صدارت سنبھال لی ۔ اور آرمی افسران کی مدد سے حکومت شروع کی ۔ اس دوران کابل کو پیرس بنانے کے لیئے کابل یونیورسٹی میں حجاب پر پابندی عائد کر دی ۔
اس نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں پردے اور داڑھی پر پابندی لگا دی‘ اس نے زنانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ لازمی قرار دے دی‘ مسجدوں پر تالے لگوا دیے اور ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں شراب خانے اور ڈسکو کلب بنوائے ‘سردار داؤد کے دور میں کابل دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے عیاشی کا اڈا بن گیا۔
خفیہ اداروں کے اہلکار اس کے مخالفین کو دن دیہاڑے اٹھا لے جاتے تھے اور اس کے بعد کسی کو ان کا سراغ نہ ملتا۔ سردار داؤد کے زمانے میں تیس ہزار کے قریب لوگ غائب ہوئے جنہیں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا ۔ ان لوگوں میں افغانستان کے علماء جنہیں ملا کہا جاتا ہے اور مذہبی سکالروں کے ساتھ ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے۔
پاکستان مخالف گروپوں کی سرپرستی
سردار دائود نے ہی سب سے پہلے پشتونستان کا نعرہ بلند کیا اور پاکستان سے عبدالولی خان ، اجمل خٹک اور صوفی جمعہ خان وغیرہ کی میزبانی کرتے ہوئے پشتون زلمے اور ینگ بلوچ کے نام پر پاکستان میں تخریب کاری کا بیج بویا۔ افغانستان اور روس میں تربیت یافتہ تخریب کاروں نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ حیات محمد خان شیرپائو کو بھی قتل کیا ۔

سردار دائود کے دور میں افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی کا نام پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان ( پی ڈی پی اے ) تھا یہ پارٹی ظاہر شاہ کے دور میں نور محمد ترکئی اور ببرک کارمل نے بنائی بعد میں دونوں نے اپنے الگ الگ گروپس بنا لیئے ۔
یہ بھی پڑھیں
- کابل سے پسپائی اور کابل میں واپسی کے بیچ گزرے 20 سال،سابق طالب کی کہانی
- طالبان کی آمد کے بعدجو افغانستان میںنے دیکھا ،پاکستانی صحافی کی رودادسفر
- افغانستان جہاں طالبان ،وارلارڈز اور جنگ کے سوا اور بھی دنیائیں آباد ہیں
- اخوندسالاک کابلگرامی مغلیہ سلطنت کےخلاف قبائل کو متحد کرنیوالے صوفی بزرگ
نور محمد ترکئی کے دھڑے کا ترجمان آرگن خلق تھا تو ببرک کارمل ، حفیظ اللہ امین وغیرہ کے دھڑے کا آرگن پرچم تھا کے انہیں خلقی اور پرچمی کے ناموں سے پکارا جاتا تھا ۔ سردار محمد دائود کے مغرب اور روس مخالف قوتوں کے ساتھ تعلقات پر کمیونسٹ پارٹی کے تحفظات تھے جس پر روس اور انڈیا کی کمیونسٹ پارٹیوں نے سردار دائود کے خلاف خلق اور پرچم دونوں دھڑوں کو متحد کر دیا ۔
1977ء میں دائود نے افغانستان کا نیا آئین بنایا جس میں روس کی طرح یک جماعتی صدارتی نظام رائج کیا گیا اور اپنے انقلابی پارٹی بنا لی ۔ 17 اپریل کو پی ڈی پی اے کے ایک راہنما اکبر کو کابل میں قتل کر دیا گیا ۔ کمیونسٹ پارٹی نے احتجاج کیا اور الزام حکومت پر لگایا جس پر پی ڈی پی اے کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ۔
حفیظ اللہ امین نے آرمی افسران کو اقتدار پر قبضے کا حکم جاری کیا ۔ 27 اپریل 1978ء کو افغان آرمی نے جہازوں اور ٹینکوں کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کر لیا ۔ سردار دائود کو ان کے خاندان سمیت صدارتی محل میں قتل کر کے اقتدار نور محمد ترکئی کے حوالے کر دیا گیا ۔
یہ انقلاب ثور کہلاتا ہے
کمیونسٹ پارٹی اور فوج نے سردار دائود اس کے بھائیوں، بیویوں، بیٹیوں، پوتوں اور پوتیوں کو گولی مار دی اس بغاوت میں دائود سمیت اس کے خاندان کے 30افراد قتل ہوئے۔ داؤد کی نعش کو جیب کے ساتھ باندھا گیا اور کابل شہر میں گھسیٹا گیا ۔ داؤد کی نعش جس جگہ سے گزرتی تھی لوگ اس پر تھوکتے تھے اور اسے ٹھڈے مارتے تھے‘شام کو جب نعش کا سفر مکمل ہوا تو اسے جنارے‘ غسل اور کفن کے بغیر خاندان کی دوسری نعشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔
سردار محمد داؤد خان کی نعش 30برس تک کابل کی ایک گمنام قبرمیں پڑی رہی ۔26جون 2008ء کو کھدائی کے دوران کابل شہر میں دو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں‘ دونوں قبروں میں سولہ‘ سولہ نعشیں تھیں‘ ان نعشوں میں سے ایک نعش سردار داؤد کی تھی ، جسے جوتوں سے پہچانا گیا۔
سردار داؤد کے بوٹوں کی آب و تاب ابھی تک باقی تھی۔ اس جوتے کے تلوؤں پر مگرمچھ کی تصویر بھی تھی اور ان کا سنہری بکل ابھی تک قائم تھا۔ یہ جوتے سوئزرلینڈ کی ایک کمپنی صرف ایک ہزار خاندانوں کے لیے بناتی تھی۔ ان جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے۔یہ سنہری چمڑے اور نیلے سینگوں والی گائے ہوتی ہے اور دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی۔
30سال بعد گمنام قبر سے ملنے والے جوتے لاش کی شناخت کا ذریعہ
جوتے کی ’’ٹو‘‘ برازیل کے مگرمچھوں کی جلد سے بنائی جاتی ۔جوتے کا ’’کوّا‘‘ افریقہ کے سیاہ ہاتھیوں کے کانوں کے چمڑے سے تیار کیا جاتا تھا اور جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہ چپکائی جاتی تھی اور سلائی کے لیے استعمال ہونے والا دھاگہ بلٹ پروف جیکٹ میں بھی استعمال ہوتا تھا۔
کمپنی کا دعویٰ تھا کہ پچاس برس تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ مٹی میں دفن ہونے کے ایک سو سال بعد تک جوتے کی آب وتاب برقرار رہتی ہے۔ افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ اس کمپنی کا ممبر تھا۔ ظاہر شاہ جلا وطن ہوا تو سردار داؤد نے اس کمپنی کی ممبر شپ لے لی اور اس کے بعد اس نے ہمیشہ اس کمپنی کا جوتا استعمال کیا یہاں تک کہ جب 1978ء کو اسے خاندان کے ساتھ قتل کر دیا گیا ۔
انقلاب ثور سے بعد کی داستان دوسرے حصے میں