صفدرحسین
یہ ریاست مدینہ ثانی یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نہیں بلکہ نیپال کے ایک دور دراز گاٶں کا واقعہ ہے جس سےمماثلت محض حسن اتفاق ہے۔بلکہ نیپال کی اس کہانی کا اور پاکستان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ہمارے قائدین کی سیاسی بصیرت اور واپڈا والوں کی آئین کی پاسداری کا ہے .چونکہ دنیا گول ہے اس لیے ایسے اتفاقات کہیں بھی رونما ہوں کہیں نہ کہیں ان میں مماثلت کا پہلو نکل ہی آتا ہے ۔
ہوا کچھ یوں کہ نیپال کے ایک چھوٹے سے گاٶں میں رات کو ایک گھر میں ڈاکہ پڑ گیا ۔چور کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ باندھ کر چلتا بنا۔البتہ چاردیواری کے پاس ایک گٹھڑی پڑی رہ گٸی۔اگلے روز اس گاٶں میں اور اردگرد کی بستیوں میں اسی ڈکیتی کی واردات کے چرچے تھے یعنی ہر ایک کی زبان پر یہی قصہ تھا۔ادھر متاثرہ گھر میں بھی بستی کے مکھیا دراٶغہ سب جمع ہو کر واردات اور طریقہ واردات کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔اتفاق کی بات کہ چور کا تعلق بھی اسی گاٶں سے تھا ۔اور وہ تفتیشی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا ۔مکھیا نے چوری کے طریقہ واردات پر اپنے قیاس کے مطابق راۓ دی تو کسی سیانے نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ چور یوں آیا ہوگا اور سامان اٹھا کر یوں نکلا ہوگا کسی نے کہا وہ کھیتوں کی طرف بھاگا ہو گا تو کسی نے کہا نہیں وہ ندی کی طرف سے فرار ہوا ہو گا ۔غرض جب سب اپنی اپنی راۓ دینے لگے تو وہاں شور مچ گیا کیونکہ ہر کوئی اپنی راۓ کو منوا کر خود کو عقل کل ثابت کرنا چاہتا تھا ۔چور یہ سب دیکھتا رہا اور بالاآخر اس کا صبر جواب دے گیا اس نے بلند آواز میں سب کو اپنی جانب متوجہ کیا اور کہا
حضرات میں آپ کو بتاتا ہوں کہ چور نے یہ واردات کیسے کی ہوگی؟ سب اس کی جانب متوجہ ہو کر اس کی بات سننے لگے ۔چور نے کہا میرے خیال میں چور کھیتوں کی طرف سے آیا ہو گا ۔پھر اس نے تسلی کی ہوگی کہ گھر والے سو رہے ہیں ۔پھر وہ دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوا ہو گا ۔پھر اس نے سارا مال اسباب سمیٹا ہو گا ۔چور کی بات میں روانی دیکھتے ہوۓ سب لوگ کان لگا کر سننے لگے ۔سب کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر چور کی بات میں مزید روانی آگئی(اور اس کے جذبات بالکل ایسے ہو گئے جیسے کسی کم ظرف کے ہاتھ طاقت اور اختیار آنے کے بعد ہوجاتے ہیں )
چور اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ کہا ۔بھائیو چور نے سارا مال ایک جگہ جمع کیا ہو گا ۔پھر وہ اس گھٹڑی کو گھسیٹ کر دیوار کے پاس لے گیا ہوگا ۔پھر وہ دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا ہوگا ۔پھر کیا ہوا ہو گا ؟
مجمع نے یک آواز ہو کر پوچھا ؟ پھر کیا ہوا ہو گا ؟
چور نے کہا پھر وہ بڑی مشکل سے گھٹڑی کو لیکر دیوار پر چڑھا ہو گا ۔پھر ؟؟؟لوگوں نے یک آواز ہو کر پوچھا ۔پھر کیا ہونا تھا چور دیوار پر چڑھا ہی ہو گا کہ کسی گھر والے کی آنکھ کھل گئی ہو گی اور کھٹکا سن کر چور گھبرا گیا ہوگا، پھر گٹھڑی دیوار کے اندر گر گئی اور میں چھلانگ مار کر باہر نکل گیا ۔ ۔۔۔
اگرچہ اس کے بعد راوی چونکہ خود بھی اس چور کی تعمیر و مرمت کا فریضہ سر انجام دینے والوں میں شامل ہونے کی وجہ سے باقی روداد کو تحریر کرنے سے قاصر رہا لیکن اندازہ یہی ہے کہ اس چور کے ساتھ وہی کچھ ہوا ہو گا جو کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گذشتہ ستر سال سے آئین کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔اور پھرکبھی کوئی وضاحت دیتا ہے کہ ہمارا اس بگاڑ سے کوئی تعلق نہیں اور کبھی کسی کو بیچ چوراہے اس بدحالی و بے حالی سے اعلان برات کرنا پڑتا ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کوئی کچھ نہ سمجھے خدا کرے



کوچہ قلم میں نو وارد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے