آزادی ڈیسک
سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو خطے کیلئے فائدہ مند قرار دیتے ہوئے فلسطین کے امن عمل کے ساتھ مشروط کیا ہے
سعودی وزیر خارجہ کا شہزادہ فیصل بن فرحان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے کے دیگر عرب ممالک جن میں بحرین ،مراکش ،سوڈان اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشش سےاسرائیل کو تسلیم کرنے اور تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوچکے ہیں
جزیرہ نما بلقان کی مسلم آبادی اور درپیش چیلنجز (حصہ اول )
متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں پاک بھارت خفیہ مذاکرات
اسرائیلی انتخابات میں اسلام پسند جماعت کی کامیابی
امریکی نیوز چینل سی این این کو دیئے گئے ایک تازہ انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے کہا میرے خیال میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے مجموعی طور خطے کے فائدہ میں ہوگا
واضح رہے کہ سعودی عرب بارہا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو امن معاہدے کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کے ساتھ مشروط قرار دے چکا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں رسمی تعلقات رکھنے سے بھی انکار کرچکا ہے
تاہم حالیہ عشروں کے دوران خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر نفوذ کے خطرے نے دونوں دیرینہ حریف ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے
بعض بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہی ہیں جن کے مطابق صیہونی ریاست اور سعودی عرب کے درمیان خاموش مفاہمت کے تحت کافی قربت دیکھنے میں آئی ہے
گذشتہ برس نومبر میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے خفیہ دورہ ریاض کی خبریں بھی زیر گردش تھی جس سے اس شبہ کو تقویت ملی کہ شاید دونوں ممالک تعلقات معمول پر لانے کے لئے کسی معاہدے پر پہنچ چکے ہیں
لیکن ریاض کی جانب سے کسی بھی ایسی ملاقات یا دورہ کی سختی کیساتھ تردید کی گئی تھی