عتیق الرحمٰن شاہ
اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ، حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والد یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ جن کے نام پر فلسطین میں یہودیوں نے اسرائیلی ریاست قائم کر رکھی ہے ۔ اس اعتبار سے اسرائیل کوئی ملک نہیں بلکہ فلسطینیوں کے علاقوں پر یہودیوں کا قبضہ ہی درحقیقت اسرائیل ہے ۔ اسرائیل کے قیام کا مطالبہ کافی پرانا ہے جس پر متعدد بار غور ہوا اور موجودہ افریقی ملک یوگنڈا اور لاطینی امریکہ میں ارجنٹائن کے کچھ علاقوں میں بھی اس ریاست کے قیام پر غور و خوض ہوا مگر قرعہ فال فلسطین کے نام پر ہی نکلا ۔ کیوں کہ یہودی اس علاقے کو ارض موعود کہتے ہیں ۔

Image by Кирилл Соболев from Pixabay

انیسویں صدی تک دولت عثمانیہ کا ایک صوبہ سالونیکا تھا جو موجودہ بلغاریہ رومانیہ ۔ البانیا اور بوسنیا وغیرہ سمیت بلقان کے علاقوں پر مشتمل تھا ۔ یہودیوں نےبابل کی اسیری کے زمانے کے بعد بلقان سمیت جرمنی و روس وغیرہ میں بود و باش اختیار کر لی ۔ سلیمان قانونی 1620 ۔ 1680ھ کے دور میں یہ دولت عثمانیہ کے شہری بن گئیے ۔ سالونیکا میں شبتائی (1627 تا 1678ء) نام کے ایک یہودی نے 1648ء میں دعویٰ کیا کہ وہ مسیح بھی ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ یہ پہلا یہودی تھا جس نے فلسطین میں صیہونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ شبتائی کے پیروکاروں کے اس فرقے کو ڈونمہ فرقہ کہا جاتا ہے ۔


خواتین کا دن

قرآن ہماری جان ،عمل سے دل پریشان


تاریخ دولت عثمانیہ میں الیہود و العثمانیہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ شبتائی نے کہا کہ وہ سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام کے وارث ہیں اور فلسطین میں یہودیوں کو آباد کر کے وہاں یہودیوں کی قومی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے ۔ جس کا دارلحکومت فلسطین ہو گا ۔ اس نے دنیا کو 88 حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کے بادشاہ مقرر کیئے ۔ اور یہودیوں کے کنیسا میں دیئے جانے والے خطبے سے سلطان محمد چہارم کا نام نکال کر اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا ۔ دولت عثمانیہ نے بغاوت اور نبوت کے جھوٹے دعوے پر شبتائی کو گرفتار کر لیا تو اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر کے جان چھڑائی ۔ شبتائی اندر سے یہودی رہا اور بظاہر اسلام قبول کر لیا ۔ اس ڈونمہ فرقے نے آئندہ کے لیئے ہمیشہ یہی روش اختیار کر لی ۔ یعنی یہ خود کو ظاہر مسلمان کرتے اور اندر اندر سے یہودی ہی رہتے تھے

Image by <a href="https://pixabay.com/users/shafman-67226/?utm_source=link-attribution&utm_medium=referral&utm_campaign=image&utm_content=197797">Kim Shaftner</a> from <a href="https://pixabay.com/?utm_source=link-attribution&utm_medium=referral&utm_campaign=image&utm_content=197797">Pixabay</a>
Image by Kim Shaftner from Pixabay
Image by <a href="https://pixabay.com/users/ornaw-8155178/?utm_source=link-attribution&utm_medium=referral&utm_campaign=image&utm_content=4269209">Orna Wachman</a> from <a href="https://pixabay.com/?utm_source=link-attribution&utm_medium=referral&utm_campaign=image&utm_content=4269209">Pixabay</a>
Image by Orna Wachman from Pixabay

شبتائی کو 1773ء میں جلاوطن کر دیا گیا اور پانچ سال بعد وہ طبعی موت مر گیا ۔ اور یوں اگلے ایک سو سال بعد دوبارہ یہودی وطن کا تصور دوبارہ زندہ ہوا ۔ 1880ء میں عثمانیوں کے ساتھ روس کی جنگ کے بعد دنیا بھر سے سرکردہ یہودیوں کی ایک کانگریس بنانے کے لیئے ایک یہودی تھیوڈور ہرٹزل نے کوششیں شروع کر دیں۔ مگر بوجوہ یہ خواب مزید سترہ سال بعد شرمندہ تعبیر ہوا ۔ عالمی صیہونی تحریک کا باقاعدہ قیام 1897ء میں عمل میں لایا گیا ۔ اس تحریک میں دنیا بھر کے بااثر یہودی شامل تھے ۔ تحریک ک پہلے سربراہ تھیوڈرہرٹزل نے دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کیا اور انہیں فلسطین میں اسرائیل نامی ریاست قائم کرنے پر ابھار ا۔

اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک صوبہ یا ولائت تھی جس کا والی عثمانی سلطان مقرر کرتا تھا ۔ ایسی صورت میں فلسطین میں یہودیریاست قائم کرنے کی اجازت عثمانی خلیفہ سے حاصل کرنا لازم تھی ۔ ہرٹزل نے 1901 میں خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی سے استنبول میں ملاقات کی مگر سلطان نے اسرائیل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ سلطان کو پارلیمان قائم کرنے کے اگلے ہی برس یعنی 1908ء میں اسی پارلیمان نے برطرف کر دیا ۔

اور اس کی جگہ نیا برائے نام خلیفہ مقرر کردیا۔ 1915ء 1916ء کے دوران جنگ عظیم اول میں ترکی مخالف قوتوں نے سائیکوپیک معاہدہ کیا۔ ان قوتوں میں فرانس ۔ برطانیہ ۔ اٹلی اور روس وغیرہ شامل تھے سائیکو پیک معاہدے کے تحت موجودہ فلسطین برطانوی انتداب کا علاقہ بن گیا ۔ اور یہاں قبضے کے لیئے برطانوی افواج حملہ آور ہوئیں عثمانی فوج نے بھرپور مزاحمت کی ۔ صیہونی تنظیم نے 1917ء میں برطانیہ کو اسرائیل کے قیام پر راضی کر لیا۔ اور یوں بالفور ڈیکلریشن جاری ہوا ۔ برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور اور لندن کے رہنے والے یہودی وائز مین نے تاج برطانیہ کو قائل کر لیا کہ فلسطین میں یہودی ریاست اسرائیل قائم کیا جائے۔

آرتھر جیمز بالفور نے اس وقت کے صیہونی تنظیم کے سربراہ روتھ شیلڈ کے نام خط لکھا جسے بالفور ڈیکلریشن کے نام سے شہرت حاصل ہوئی ۔ اس خط میں بالفور نے لکھا کہ ہز میجسٹی کی حکومت فلسطین کے اندر یہودیوں کی قومی ریاست کے قیام کی حمایت کرتی ہے ۔ فلسطین کے برطانوی انتداب میں شامل ہونے کے بعد یہاں گورنر کا تعین برطانیہ کرتا تھا اور اسی آڑ میں دنیا بھر سے یہودیوں کو یہاں کا کر بسانے کا آغاز ہوا ۔

ابتداء میں یہودیوں نے زمینیں خریدنا شروع کیں اور پھر تجاوزات شروع کر دیں ۔ جنگ عظیم اول سے لیکر جنگ عظیم دوم تک دنیا بھر سے یہودیوں کو یہاں لا کر آباد کیا جاتا رہا ۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ نے فلسطین سے انخلاء کے لیئے 15 مئی 1948ء کی تاریخ دے رکھی تھی ۔ انخلاء سے ایک روز قبل یعنی 14 مئی 1948ء کو ہی فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ۔