اعجازعلی
سوات
کسی قوم کی تاریخ‌کی حقیقی تصویرکشی اس قوم کے نوجوانوں‌کو اپنا ماضی بہتر انداز میں‌سمجھنے اور پراعتماد انداز میں‌اپنے مستقبل کا تعین کرنے میں‌مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور اس حقیقت کو ترک حکومت نے صحیح معنوں‌میں سمجھا اور اسے ڈرامہ سیریل ارطغرل کی صورت میں‌پیش کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں‌کو ان کے شاندار ماضی سے جوڑ دیا ہے

ارطغرل غازی کون تھے ؟

پانچ سیزن پر مشتمل ڈرامہ ارطغرل نے مغربی دنیا کو اسلامی تاریخ کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دی

اوغوز ترک ارطغرل غازی دنیا کی عظیم خلافت کے بانی عثمان کے والد تھے ،جن کی بنیاد رکھی ترک ریاست 600 سال سے زائد عرصہ تک برقرار رہی جو اپنے عروج کے وقت جنوب مشرقی یورپ ،مغرب و وسط ایشیا ،شمالی افریقہ کے خطوں‌تک پھیلی ہوئی تھی ،اگرچہ ارطغرل کے بارے میں‌بہت کم معلومات دستیاب ہیں‌،تاہم ترک تاریخی حوالوں‌کے مطابق وہ اوغوز ترکوں کے قائی قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے تھے ،جبکہ بعض تاریخ‌دان انہیں‌گندوز الپ کا بیٹا قرار دیتے ہیں‌،جو منگولوں‌کے خطرے کے پیش نظر وسط ایشیا سے اناطولیہ کے خطے کی جانب ہجرت کر گئے


تنم فرسودہ جاں پارہ ،جامی کی تڑپ جو آج بھی عشاق کو تڑپاتی ہے

 

عہد زریں کا ہمہ جہت نام،عمر خیام

 

احمد شاہ ابدالی کی ہندوستان مہم اور تناول میں‌نئے دور کا آغاز


اپنے والد سلمان شاہ کی وفات کے بعد ارطغرل سلطنت روم کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور ان کی وفاداری و صداقت کے بدلے سلطنت نے انہیں بازنطینی سرحد کے قریب واقع سوغوت کا شہر ان کی عملداری میں‌دیدیا .جہاں‌سے آنے والے دور میں عظیم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالے جانے والے واقعات کا آغاز ہوا
کہا جاتا ہے کہ ارطغرل غازی کی یاد میں‌ان کے بیٹے عثمان اول نے ایک مسجد اور ان کا مقبرہ تعمیر کیا تھا ،لیکن مرورزمانہ کے ہاتھوں‌نشانات مٹنے کے باعث ان کے اصل مقام کا تعین ہونا ممکن نہیں‌،جبکہ موجودہ مقبرہ سلطان عبدالحمید ثانی نے 19 ویں‌صدی میں‌تعمیر کروایا ،جہاں‌ہر سال ترک عظیم عثمانیوں‌کی یاد میں‌تقریبات منعقد کرتے ہیں

اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیت ابن العربی کا تعارف بھی اسی ڈرامے کے توسط سے ممکن ہواے


ڈرامہ سیریل دریلش ارطغرل 2014 میں‌ترکی میں‌نشر ہوا ،پھر 2017 میں‌اسے نیٹ فلیکس پر بھی 448 اقساط پر مشتمل پانچوں سیزن جاری ہوئے ،جس نے دنیا میں‌بالخصوص مسلم نوجوان نسل کو اپنے سحر میں‌جکڑ کر رکھ دیا ،اس ڈرامے کو گزشتہ سال اس وقت اور بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جب پاکستان کے سرکاری ٹی وی پاکستان ٹی وی نے ترک سرکاری ٹی وی ٹی آر ٹی کے اشتراک سے اسے اردو میں‌ترجمہ کرکے نشر کرنا شروع کردیا اور یوں‌اس ڈرامہ کے ناظرین کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا.

 

ارطغرل کا کردار ادا کرنیوالے اداکار انجین آلتان کے اس ڈرامے نے عالمگیر شہرت بخشی

دریلیش ارطغرل اور مختلف ممالک کا ردعمل
اس ڈرامے کے حوالے سے مختلف ممالک کا ردعمل مختلف رہا ،کہیں اسے کھلے دل و ذہن کے ساتھ قبول کیا گیا اور کہیں اس پر شکوک و شبہات ظاہر کرتے ہوئےاسے نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا گیا .مصر،سعودی عرب ،عرب امارات نے اپنی سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اس کی مخالفت کی ،حتی کے مصر کے سرکاری مذہبی ادارے نے اس کے خلاف ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ،کہ ترکی اس ڈرامے کی مدد سے مشرق وسطیٰ‌میں‌اپنا رسوخ‌بڑھانے اور ان پر دوبارہ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے
خود ترکی میں‌بھی صدر رجب طیب ارگان کے مخالفین نے اس ڈرامے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے صدر اردگان کی جانب سے اسلام ازم کے فروغ کے ذریعے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی ایک کوشش قرار دیا ،تاہم پاکستان میں‌معاملہ بالکل برعکس رہا ،جہاں حکومت نے عوام کو اس ڈرامے کے دیکھنے کی حوصلہ افزائی کی اور اسلامی تاریخ تہذیب و اخلاقیات اور مسلم امہ کے تصور کو سمجھنے کےلئے ڈرامے کو دیکھنے کا مشورہ دیا ،جس سے دیرینہ پاک ترک تعلقات کو بھی ایک نیا موڑ ملا

نوجوان نسل کی فکر ونظر پر اثرات 

ڈرامہ کے سیاسی یا ثقافتی اثرات سے قطع نظر ارطغرل نے دنیا بھر میں نوجوان نسل کو بلاتفریق ملک و ملت اپنے سحر میں‌مبتلا کیا
پاکستان سے تعلق رکھنے والے سید عارف جو کہ پیشے کے لحاظ سے سول انجنیئر ہیں‌کے بقول ،اس ڈرامے کے مرکزی خیال ،کرداروں کی جانداری اداکاری ،دلچسپ کہانی نے انہیں‌خلافت عثمانیہ کے شاندار ماضی کی تصویر دکھا دی ہے
یہی حال بھارت کا بھی ہے جہاں کی مسلم نوجوان نسل بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں‌رہ سکی ،اور انہیں‌اس تحریک کی یاددلا دی جو ان کے بزرگو ں‌کے مسلم امہ کے اتحاد یعنی خلافت عثمانیہ کے خاتمے کےخلاف چلائی تھی .جرمنی میں‌کام کرنے والے بھارتی مسلم نوجوان احمد حماد کو ڈرامہ ارطغرل سے ایک خاص انسیت محسوس ہوتی ہے ،ان کے بقول ہمارے نوجوانوں‌کے اپنی تاریخ‌کے عظیم قائدین کی راہ پر چلتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے جرات و استقلال کیساتھ آوازبلند کرنی چاہیے اور یہی اس ڈرامے کا حاصل ہے
اور آج کے ڈیجیٹل دور میں‌ہمیں‌اپنی تاریخ‌اور اجداد کے ان کارناموں‌اور خدمات کےبارے میں زیادہ جاننے کی ضرورت ہے جو انہوں‌نے اس دنیا کو بہتر نظام دینے کےلئے سرانجام دی ہیں


اعجاز علی،انگلش لٹریچر اور جرمن یونیورسٹی سے یورپین سٹیڈیز میں‌ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس وقت ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں


ترجمہ:صفدرحسین ‌