آمنہ منظور کینٹ پبلک کالج ،ضرار شہید روڈ لاہور

اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

قومی زبان کسی بھی ملک کی شناختی زبان ہوتی ہے جو اس کی ثقافت اور تہذیب کی عکاسی کرتی ہے. دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی قومی زبان کی اہمیت و افادیت کو پہچانتی ہیں اور اسی زبان میں تعلیم کو فروغ دیتی ہیں . قومی زبان ذہنی آزادی کا سبب ہے. اور ملکی وقار و سالمیت کے لیے ناگریز بھی ہے. قومی زبان کسی بھی ملک وقوم کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے اور اس کی بقامیں اہم کردار ادا کرتی ہے.

 

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے
اور کوئی رسول نہیں بھیجا ہم نے مگر بولی بولنے والا اپنی قوم کی تاکہ ان کو سمجھائے۔
سورہ ابراہیم(آیت:3

اسی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے لیے قومی زبان کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا ۔جلسہ عام ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ کا خطاب جس میں انہوں نے فرمایا:۔
یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔

قائد اعظم محمد علی جناحؒ دور اندیش راہنما تھے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی قومی اور سرکاری اہمیت اورحیثیت کو سمجھا اور اسے اس کا جائز مقام دینے، اس کی افادیت کو تسلیم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے اردو زبان کے شاندار ماضی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور مستقبل میں اس زبان کے فکری اور معنوی پھیلاؤ کو اپنی چشمِ تصور سے ملاحظہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی یگانگت ، اتحاد ، اور یکجہتی کی علامت قراد دیا

اردو ایک نہایت خوبصورت زبان زبان ہے جیسا کہ شاعر فرماتے ہیں

اردو ہزار قافلہ چہروں کی گرد ہے
اردو نوائے گل کی طرح رہ نورد ہے
اردو لسانیات کی دنیا کا فرد ہے
اردو ولی ہے میر ہے سودا ہے درد ہے
اردو زبان آتش و ناسخ کی پیاس ہے
اردو نہاد ذوق ہےغالب اساس ہے

مارچ 1948ءکو انہوں نے جو بیان دیا اسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے
”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عناصر نے اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا نعرہ لگایا تو قائد اعظم ؒ نے نہایت سختی کے ساتھ اس رویے کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی اور یہی زبان پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے اور ان کے ثقافتی اور تہذیبی رویوں کی آئینہ دار بھی۔

جیسا کہ داغ دہلوی کہتے ہیں
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

قائداعظم ایک نہایت عقلمند اور مستقبل شناس رہنما تھے انہوں نے اردو زبان کو سرکاری اور قومی زبان قرار دیا کیونکہ یہ زبان صوبوں کے درمیان رابطے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے ۔وہ بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ ملک و قوم کی ترقی میں زبان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

لیکن آج بدقسمتی سے اردو سے زیادہ انگریزی زبان کو اہمیت دی جاتی ہے دفتروں اسکولوں کالجوں کر کے ہر جگہ انگریزی زبان استعمال کی جاتی ہے اور اردو زبان کا کردار ثانوی رہ گیا ہے
اردو بہت سی مختلف زبانوں کا امتزاج ہے


یہ بھی پڑھیں


لشکری زبان اپنے اندر تمام زبانوں کی خوبصورتی اور جاذبیت رکھتی ہے

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ایسا نہیں۔ ہماری قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگریزی ہے جس سے ہماری غلامانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری طرف ملک میں دیگر کئی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جنہیں سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کا تعلیمی نصاب اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر قومی زبان کی پذیرائی نہ ہونے کے باعث ہماری قوم گومگوں کا شکار ہے۔

ایک خاص طبقہ اردو بولنے کو اچھا نہیں سمجھتا اور انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ متوسط طبقہ اسے اپنی احساس محرومی سمجھتے ہوئے خاص طبقے کی پیروی کرتے ہوئے انگریزی بولنے کو ترجیح دیتا ہے اور دیکھا دیکھی یہ بیماری پھیلتی جا رہی ہے۔

64برس گزرنےکے بعد بھی قومی زبان سرکاری سرپرستی سے محروم ہے۔جسکی وجہ ہم خود ہیں۔ہم نے انگریزی زبان کو ہی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے۔آج کسی کو اردو نہیں آتی وہ فخر سے بتاتا ہے جبکہ انگریزی نہ آنا شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہےحالانکہ اردوزبان عالمی زبان ہےاور یہ دنیا کی کئی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہے

اردو جیسی عظیم زبان ان اپنی عظمت کھو رہی ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتے ہیں

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی
دکن کہ ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
میر کی عظمت نے مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبال نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا
ذوق کی عظمت نے دیئے مجھ کو سہارے
چک بست کی الفت نے میرے خواب سنوارے
اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے