لفظ قوم اپنے معنوں پر انتہائی سنجیدگی سے سوچ بچار کرنے کا متقاضی لفظ ہے۔ سب سے پہلے ‘قوم’ کی تشریح دو لحاظ سے کی جا سکتی ہے۔ مذہب اور جغرافیہ دو ایسی وحدتیں ہیں جنہوں نے قوم کے مفہوم کو اپنے اپنے انداز میں بیان کر کے دو ایسے تصورات کو جنم دیا ہے جن کا انکار ناممکن ہے مذہب کی بنا پر بننے والی قوم کی پہچان کس کے مذہبی عقائد، مذہبی رسوم و رواج، مذہبی اخلاقیات اور مذہبی زبان ہوتی ہے۔
جب ہم قوم کے جغرافیائی تصور پر غور کرتے ہیں تو کسی خاص خطے کے انداز آنے والے انسانوں کے اس گروہ کو قوم کہا جائے گا جن کا نصب العین اور طرزِ زندگی ایک ہو، اور وہ گروہ اس نصب العین کو پانے کے لیے کوشاں ہو۔ اس قوم کی پہچان اس کی تہذیب ہے جو کہ کلچر، تمدن اور ثقافت کا مجموعہ ہے۔ تہذیب کے اندر جہاں رہن سہن کے طریقے، رسوم و رواج، لباس و پوشاک، پسند و ناپسند کے معیارات اور ہر طرح کے اخلاقی امور آتے ہیں وہیں زبان ایک ایسا عنصر ہے جس کے بغیر کسی بھی تہذیب کا مطالعہ ادھورا ہوتا ہے۔
انسانوں کا وہ خاص گروہ اپنے نصب العین کو پانے کی غرض سے کسی مخصوص زبان کا سہارا لیتا ہے جو اس کے تصورات کی عکاس اور تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
آج سے کم و بیش پونی صدی قبل ایشیاء کے جغرافیے میں “پاکستان” کا کوئی وجود نہ تھا۔ ضرورتِ وقت کے تحت مفکرین و مجاہدین کی کاوشوں کی بدولت ربِ قدوس نے مسلمانانِ برصغیر کو آزاد وطن کی نعمت سے بہرہ ور کیا۔ ان تمام قائدین میں جو تحریکِ خلافت سے تحریک پاکستان اور پھر حصولِ پاکستان تک پیش پیش رہے،ان میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کا کردار مرکزی اور بلند تر رہا۔
۱۹۴۰ء (قراردارِ پاکستان) کے بعد تو قائداعظم محمد علی جناحؒ ہی وہ واحد شخصیت رہ گئے جو اس اعزاز کے لائق تھے۔ وقت کا تقاضا تھا کہ ہندوستان کے مخلوط قومیتی نظام سے ہٹ کر مسلمانوں کو الگ سے اپنی پہچان حاصل کرنی چاہیے۔ اس غرض سے قائداعظمؒ نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملکِ پاکستان کا حصول ممکن بنایا۔ بین السطور قوم کے جغرافیائی تصور میں آ چکا ہے کہ کسی قوم کی پہچان اس کی تہذیبی اقدار ہوتی ہیں اور ان تہذیبی اقدار میں زبان کو اولیت حاصل ہے۔ مسئلہ یہاں بھی یہی درپیش تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کی قومی زبان کیا ہو گی؟
قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسی معاملہ فہم اور دور اندیش شخصیت نے وقت پہ ہی اس مسئلے کو حل کر کے قوم کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ کو دور کر دیا۔ آپ ؒ کا تصورِ قومی زبان ایک خاص واقعے کے تحت سامنے آتا ہے۔ ۱۹۴۶ء میں دہلی میں مسلم لیگ کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سر فیروز خان نون نے اپنی تقریر انگریزی میں شروع کی تو چاروں طرف سے شور اٹھا:
“اردو۔ اردو”۔ انہوں نے بحالتِ مجبوری چند جملے اردو میں کہے اور پھر انگریزی میں بولنے لگ گئے۔ پھر سے ہنگامہ ہوا تو موصوف نے سٹپٹا کر کہا:”مسٹر جناحؒ بھی تو انگریزی میں تقریر کرتے ہیں”۔ یہ سن کر قائداعظمؒ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: “سر فیروزخان نون نے میرے پیچھے پناہ لی ہے۔ لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی”۔قائداعظمؒ نے قطعی طور پہ جذباتی فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ اس وقت ان کا ۳۰ سالہ تجربہ بول اٹھا تھا۔ آپؒ کے سامنے تھا کہ مسلمان جب سے تحریکِ آزادی کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں، ان کی قراردادیں، تقریریں، بیانات، نعرے، مطالبات، غرض ہر قدم پہ اردو زبان کا سہارا لے رہے ہیں۔ جبکہ اس دور میں بیشتر زبانیں موجود تھیں۔ جیسا کہ بنگالی، پنجابی، پشتو وغیرہ۔
یہ بھی پڑھیں
- ذہنی غلامی کے خاتمے اور قومی ترقی کیلئے اردو زبان کا نفاذ وقت کی ضرورت
- اسلام اور اردو مسلم اتحاد کے بنیادی عناصر ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح
- دستور اور عدلیہ ضامن ! اردو کو جائز مقام کیوںنہ مل سکا ؟ایک سوال جو ہمیں پوچھنا ہوگا
- بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا، ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا !
- اردو کا تنازعہ پیدا نہ کیا جا تا تو آج مشرقی و مغربی پاکستان ایک ہوتے
ایک محتاط اندازے کے مطابق جب پاکستان بنا تو ۴۷ فیصد بنگالی بولی جاتی تھی اور ۳۰ سے ۳۵ فیصد پنجابی، جبکہ اردو فقط ۷ فیصد لوگ بولتے تھے۔ اس کے باوجود بابائے قوم نے اسی زبان کو پاکستان کی زبان قرار دیا تو اس کے پس منظر میں ان ۳۰ سالوں کے سارے مشاہدات موجود تھے۔وہ جانتے تھے کہ قومی وحدت کا فریضہ اگر کوئی زبان ادا کر سکتی ہے تو وہ یہی ۷ فیصد بولی جانے والی اردو زبان ہے۔
قائداعظمؒ کی وفات کے بعد قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ زبان کے اس بے بنیاد جھگڑے نے کس طرح ملک کو دو ٹکڑوں میں کاٹ کر رکھ دیا۔ قائداعظمؒ کی نظرِ رسا اس ہنگامہ آرائی کو بھانپ گئی تھی۔دوسرا پہلو یہ کہ اردو زبان کے متعلق کوئی ایک خطہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ میری زبان ہے۔ یعنی پاکستان کا کوئی صوبہ یا علاقہ اردو زبان کو اپنا کہہ کر متعصب نہیں ہو سکتا تھا۔ جیسا کہ بنگال اور پنجاب میں مشاہدہ ہو گیا۔ کوئی مخصوص نسل(قوم کا نسلی تصور) اسے اپنا کہہ کر متعصب نہیں ہو سکتی تھی جیسا کہ گوجری یا پشتو۔ اس عظیم دماغ نے قومی وحدت کے لیے اردو کو ہی چنا اور اسے پاکستان کی زبان قرار دے کر قوم پر اپنا عظیم تصور پیش کر دیا۔
اردو قومی زبان یا سرکاری زبان
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا یا سرکاری؟ اس کی بالکل سادہ دلیل یہ ہے کہ قومی و سرکاری کا تضاد بعد کی پیداوار ہے۔ جب کوئی زبان کسی قوم کی زبان قرار دے دی جائے تو وہی اس کی زبان ہوتی ہے چاہے اسے سرکاری کہا جائے یا قومی۔ قائداعظمؒ نے اردو کو پاکستان کی زبان قرار دیا نہ کہ فقط قومی زبان قرار دے کر انگریزی کو سرکاری زبان کے درجے پہ رکھا۔
ایک دوسری جگہ قائداعظمؒ نے اردو کو واضح طور پر پاکستان کی سرکاری زبان کہا ہے۔ ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ میں اردو زبان کے خلاف شورش برپا ہوئی تو قائداعظمؒ نے اپنی علالت کے باوجود مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور ۲۲۔مارچ کو اپنی تقریر کے دوران واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا: “میں واضح طور پہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہی ہو گی، کوئی دوسری زبان نہیں”۔ قیامِ پاکستان سے قبل قائداعظمؒ زبان کے حوالے سے اپنا تصور پیش کر چکے تھے۔ دوبارہ سے ایسا کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہاں ایک مصور اور نسلی معتصب کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
اگر شروع دن سے پاکستان کے اندر آنے والے لوگ اپنی ترجیحات کو ایک مقام پر لاکر مجموعی کاوش میں لگ جاتے تو وہ پاکستان ضرور حاصل ہو جاتا جس کا خواب اقبال نے دیکھا اور تعبیر قائداعظمؒ نے دی۔ ایسا آج تک نہ ہو سکا اس لیے کہ یہ ملک متعصبین کی زد میں شروع دن سے آ چکا تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی کو پاکستان کی زبان بنانے کی کوششیں عروج پہ تھیں۔ ان حضرات کا یہ نظریہ تھا کہ پاکستان میں بنگالی اکثریت میں بولی جانے والی زبان ہے۔ جب کہ قائداعظم نے اردو کو پاکستان کی زبان بنا دیا جو کہ سب سے کم بولی جا رہی ہے۔ ادھر قائداعظمؒ کو ان ہنگامہ آرائیوں کا پہلے سے معلوم تھا۔ تب دوٹوک فیصلہ کیا۔ وہ ماہر طبیب کی طرح اس بیماری کا علاج کر دینا چاہتے تھے جو بعد میں ناسور بن سکتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ناسور بن بھی گئی کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان میں اردو کو وہ مقام نہ مل سکا جو بابائے قوم نے دیا تھا۔
قائداعظمؒ نے اپنے اس فیصلے میں صوبوں کی صوبائی زبانوں کو مدِ نظر نہیں رکھا۔ بلکہ اس زبان کو مدِ نظر رکھا جو چاروں صوبوں کے مابین اتحا د قائم کرنے والی ہو۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد کے مابین مفاہمت پیدا کرنے والی اگر کوئی زبان ہو سکتی ہے تو وہ اردو ہی ہے۔ قائداعظمؒ نے یہی تصور ان الفاظ میں پیش کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو،
صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ اردو ہے۔ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ یہ فقط اتحاد و افہام کا ہی سوال نہیں تھا بلکہ قائداعظمؒ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور قومی ترجیحات پہ بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس وقت پاکستان کی تہذیب کئی ایک مقامی تہذیبوں کا مجموعہ ہے۔ جبکہ اعلیٰ سطح پر جب بحیثیتِ مجموعی پاکستانی ثقافت کی بات آتی ہے تو اردو اس کا تعارف پیش کر رہی ہوتی ہے۔لہٰذا اردو زبان کو اس نوزائیدہ مملکت کی قومی زبان قرار دینے سے قائداعظمؒ کا مقصد مسلم تہذیب و ثقافت کا احیاء بھی تھا۔
چنانچہ فرماتے ہیں: “اردو وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے۔ یہ وہ زبان ہے جسے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے اور یہ زبان دوسرے اسلامی ملکوں کی زبانوں سے قریب ترین ہے”۔ اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کے پس پردہ قائداعظمؒ کے عمیق تجربہ اور تاریخ پر گہری نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی پس منظر کے تحت قائداعظمؒ نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔
5/5
https://youtu.be/x0Ag-aHkMxw