یسریٰ عبد الوحید ۔ کا تعلق دھیر کوٹ آزاد کشمیر سے ہے اور وہ ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے مائیکرو بائیو لوجی میں بی ایس کر رہی ہیں

اک سوسورج تھا جو تاروں کے گھروانے سے اٹھا
کیا شخص تھا جو کہ زمانے سے اٹھا تھا
قائد اعظم جیسی عظیم ہستی محتاج تعارف نہیں . ان کی ذات پاکستان مسلمانان بر صغیر کے لیئے انعام خدا وندی سے کم نہیں
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انہی کی وجہ سے آج پاکستان کے تمام مسلمان سکھ کا سانس لے رہے ہیں.
جس طرح ستارے نور دے کر رات سے کچھ نہیں لیتے ، مگر شب تاریک کو منور کر جاتے ہیں . اسی طرح قائد بھی اپنی قوم کو انگریز استعمار سے آزادی دلوا کر خود چل بسے . ان کے بعد زمام کار جن لوگوں کے ہاتھ میں آئی یہ ان کا فرض تھا کہ وہ سوچتے کہ قائد نے قربانیاں کس لیئے دیں . کیا خود غرضوں اور قومی و تہذیبی اقدار سے بے بہرہ لوگوں‌کو لسانیت اور تفرقے یا علاقائی عصبیتوں کو اجاگر کرنے کے لیئے یہ ملک بنایا گیا تھا . کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ارض پاک کی تشکیل کا مقصد کیا تھا

قائد اعظم کا تصور قومی زبان

جب قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی تو پھر یہاں انگریزوں کی وفاداروں اور احساس کمتری کے ماروں نے انگریزی کیوں رائج کی یہ بہت اہم سوال ہے .آزادی کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے نافذ نہیں کیا گیا .
1835ء میں انگریز نے ہندوستان سے فارسی ختم کر کے انگریزی کو سرکاری زبان بنایا تھا وہی سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے
حکمرانوں کو اپنے اثاثے بڑھانے کا فن تو آ گیا ، اور راتوں رات اربوں کھروبوں کی جائیدادیں تو بنا لیں مگر اردو کو قومی زبان نہ بنا سکے . قوانین میں تو اپنی مرضی کے مطابق سینکڑوں تبدیلیاں کیں اور آئین میں من چاہی ترامیم بھی کرتے چلے گئے مگر نفاذ اردو کا عوامی مطالبہ طاق نسیاں پر دھرا رہا .
ہمارے حکمرانوں نے اردو کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ہندوستان میں ہندئوں نے بھی نہ کیا ہو گا . کیا ہم اتنے مفلوک الحال ، مقروض اور نقال ہیں کہ اپنی زبان تک نہیں بول سکتے؟ اپنے خیالات کا اظہار اپنی زبان میں بھی کرنے سے قاصر ہیں . انگریزی صحیح بولنی آتی نہیں مگر انگریزی کا جنون اپنی حدیں پار کرتا جا رہا ہے .

یہ بھی پڑھیں

قائد کے ارشادات اور قومی زبان

اردو زبان ہندوستان میں‌مسلمانوں کے شاندار اور تابناک ماضی کی آئینہ دار بھی تھی اور مسلمانوں کے روشن اور خوش کن مستقبل کا اظہار بھی . ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے فرامین کی روشنی میں اردو زبان کو اس کا جائز مقام دیا جائے . قائد اعظم نے مختلف مواقع پر اردو زبان کی اہمیت ، افادیت اور ترویج و اشاعت کے حوالے سے جو ارشادات فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں

پہلا بیان( 1942ء):۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا بیان 1942ء ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے تحریر کیا گیا ہے۔
”پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“
دوسرا بیان (1946ء):۔
قائد اعظمؒ نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس ،دہلی میں فرمایا :۔
”میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“
تیسرا بیان (1948ء):۔
تیسرا بیان جسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جلسہ عام ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ کا خطاب ہے جس میں انہوں نے فرمایا:۔

”میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔“
چوتھا بیان (1948ء):۔
چوتھا بیان 24 مارچ 1948ء کا ہے اسے بھی سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:۔
”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“
قائد اعظم محمد علی جناحؒ دور اندیش راہنما تھے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اردو زبان کی قومی اور سرکاری اہمیت اور حیثیت کو سمجھا اور اسے اس کا جائز مقام دینے، اس کی افادیت کو تسلیم کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے اردو زبان کے شاندار ماضی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور مستقبل میں اس زبان کے فکری اور معنوی پھیلاؤ کو اپنی چشمِ تصور سے ملاحظہ کرتے ہوئے اسے پاکستان کی یگانگت ، اتحاد ، اور یکجہتی کی علامت قراد دیا۔

اردو کی تہذیبی اور فکری اہمیت:۔

وہ اردو کی تہذیبی اور فکری اہمیت سے آگاہ تھے۔ ان کے نزدیک اردو نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے مذہی، فکری، تہذیبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشرتی رویوں کی آئینہ دار تھی اور ہے، بلکہ اس کا پھیلتا ہوا منظر نامہ مسلم امہ کی دوسری زبانوں کے ساتھ اس قدر فکری اور معنوی اشتراک رکھتا ہے کہ یہ مسلمانانِ برصغیر کو امت مسلمہ کے مجموعی دھارے کے ساتھ وابستہ رکھنے میں بھی کار گر ثابت ہو سکتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد جب کچھ عناصر نے اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان کے طور پر رائج کرنے کا نعرہ لگایا تو قائد اعظم ؒ نے نہایت سختی کے ساتھ اس رویے کی مخالفت کی۔ انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی قومی ، سرکاری اور دفتری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی اور یہی زبان پاکستانی عوام کی امنگوں کی ترجمان بھی ہے اور ان کے ثقافتی اور تہذیبی رویوں کی آئینہ دار بھی۔

بانی پاکستان اردو کو بحیثیت قومی زبان رائج کرنا چاہتے تھے یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کیوں کہ تحریک پاکستان کے دوران بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی انہوں نے ہمیشہ اردو کے قومی زبان ہونے کی حیثیت پر زور دیا . یہ موضوع تاریخی طور پر اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ نہ صرف ہندوستان کے تاریخی پس منظر میں اردو زبان کا جائزہ لیا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اردو دشمنی نے کس طرح متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کے لیئے ذہن سازی کی ہے .
اردو زبان کا نفاذ اور اس کی اہمیت کیوں ضروری ہے اس بات کا جواب ہمیں‌بانی پاکستان کی ایک تقریر کے اقتباس سے ملتا ہے جس میں انہوںنے فرمایا تھا کہ کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور فکری یکجہتی تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی.
زبان کسی قوم کے افتخار کا نشان ہوتی ہے . زبان صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ قومی شناخت اور تشخص کی ترجمان ہوتی ہے اردو زبان میں جدید علوم و فنون کے مکمل ابلاغ کی پوری صلاحیت موجود ہے . اردو کو بحیثیت قومی زبان رائج کرنا ہماری ضرورت ہے . آزاد اور خود مختار قوموں کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قومی زبان کے فروغ کے لیئے جدوجہدکرتی ہیں اور اس کی ترقی کے لیئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں . انشاء اللہ اردو کو بہت جلد اس کا مقام و مرتبہ ملے گا .
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
آج کے دور میں جب کہ ہر ایک کے دل میں انگریزی کا جنون رچا بسا ہوا ہے کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو اردو کی اہمیت اور افادیت کو جانتے ہیں اور ان شاء اللہ ان کی وجہ سے اردو کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل ہو گا . اور قائد اعظم کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا.
ہماری اردو زبان جو فروغ نہ پا سکی
قصور وار ہم اردو زبان والے ہیں
اور سلیقے سے ہوائوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں‌
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں