عدنان علی
بی ای ایل ایل بی
یونیورسٹی آف لا، کراچی

ہر قوم اور ملک کی اپنی تاریخ اور تہذیب ہوتی ہے اور اُن دونوں کی شروعات ہوتی ہے اُن کی زبان سےـ انسان جب جنم لیتا ہے تو اُسے دو زبانیں آتی ہیں، ایک وہ جو اپنے ٹوٹے پھوٹے اور رٹے رٹائے الفاظ کہتا ہے اور دوسری وہ جو اپنے ماں باپ، گھر والوں اور پھر سماج سے سیکھتا ہےـ زبان کسی بھی تہذیب یا تمدن کا سینگار ہوتی ہے، جس کے ذریعے ہر کوئی اپنی بات کہہ سکتا ہے، جذبات کو بیان کر سکتا ہے، خیالوں کو ایک آواز دے سکتا ہے، کسی ارادے کو ایک تحریر دے سکتا ہے، خاموشی اور اجنبیت کو ایک آواز دے سکتا ہے، احساسات کو ایک زبان دے سکتا ہے اور کسی زندگی کے لمحے کو بیان کر سکتا ہےـ

درحقيقت زبان کسی ننھے بچے کی طرح معصوم ہوتی ہے، بہت ہی میٹھی، بہت ہی خوبرو اور اگر بولنے والا یا لکھنے والا ماہر تو وہ اُس زبان کو اور بھی توانائی اور جان بخش دیتا ہےـ

اردو زبان، انگریزی، روسی اور چینی زبان کے بعد دنیا کی چوتھی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے جو مختلف زبانوں یعنی فارسی، عربی اور مختلف علاقائی تہذیب کا ایک منفرد ملاپ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں مختلف تہذیبوں اور رنگوں کا بہترین امتزاج نظر آتا ہےـ اردو زبان فارسی اور عربی سے لے کر دنیا کے منفرد تہذیبوں پر اپنے اثرات رکھتی ہےـ اردو نہ صرف برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی زبان تھی بلکہ ہندوؤں کی بھی زبان تھی جس کی شروعات بھی ہند و پاک سے ہوئی اور پھر دنیا کے ہر ایک کونے تک پھیل گئی ـ

اردو زبان کا اسلام سے بھی گہرا تعلق رہا ہے یہی وجہ تھی کہ عربی زبان میں لکھے گئے قرآن مجید کو اُردو میں ترجمہ کیا گیاـ قرآن کریم کی متعدد تفسیریں لکھی گئیں، نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارک پر کئی جلدیں مرتب کی گئیں اور احادیث نبوی ﷺ کے لاتعداد مجموعے چھاپے گئےـ اُردو زبان ایک منفرد اور شہد سے زیادہ میٹھی زبان ہے جسے جب کوئی بولے تو لگتا ہے پھولوں کی مہک نچھاور کر رہا ہوـ جسے جب کوئی لکھے تو لگتا ہے کہ جیسے کاغذ پر عنبر چھڑک رہا ہوـ

اقبال اشہر نے اس قومی زبان کی فریاد کو کیا خوب بیان کیا ہے:

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلمان نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

یہ بھی پڑھیں

قائد اعظم محمد علی جناح اُردو زبان سے اس طرح محبت کرتے تھے جس طرح کوئی بچہ اپنی پسندیدہ چیز کے پیچھے دیوانہ ہوتا ہے اور اُسے پانے اور حاصل کرنے کے لیے روتا ہے، تڑپتا ہے، ضد کرتا ہے، کوشش کرتا ہے، قائد اعظم محمد علی جناح بھی اُردو زبان کو قومی زبان بنانے کے لیے یونہی بے تاب رہتے تھے، بقول ڈاکٹر محمود الرحمن(٥٦:٢٠٠٨) کے “ قائد اعظم محمد علی جناح کی اردو سے اس حد تک محبت تھی کہ وہ اُسے ہمیشہ زندہ و تابندہ دیکھنا چاہتے تھے اور اُسے قومی زبان بنانا چاہتے تھےـ

”(١) چنانچہ ٢٣ اکتوبر ١٩٣٧ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت اللہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پچیسویں سالانہ اجلاس میں پاس ہونی والی قراردا میں یہ کہا گیا:
“ اُردو زبان جیسا کہ ایک ہندوستانی زبان تھی اور ہندو ثقافت سے اُس نے جنم لیا اور ہندوستان کی بڑی تعداد اُسے بولتی ہے اور ایک متحدہ قوم کے فروغ لئے یہ بہت ہی موزوں اور مناسب تھی ـ اٌس کی جگہ ہندی لانے کی کوشش، اردو کی تشکیلی بنیاد کو تہس نہس کر سکتی ہےـ یہ ہندو مسلم دوستی کی بیچ دراڑ پیدا کر سکتی ہے، لہذا مسلم لیگ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہندوستان کے اُردو بولنے والے لوگ، اُردو زبان کی ترقی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں، چاہے وہ مرکزی حکومت ہو یا صوبائی حکومت اور جہاں جہاں اُردو بولی جاتی ہے، وہاں اُُردو زبان کے پرچم کو اور بلند کیا جائے تا کہ وہ جب بھی لہرائے تو سرخرو لہرائے اور جہاں اُردو بولنے والے لوگ کم ہیں وہاں ایسے انتظامات کیے جائیں کہ اُردو زبان ایک مضمون کی طرح لوگوں کے ذہن اور یادداشت میں مرکوز ہو جائےـ تمام سرکاری دفاتر، عدالتوں، ریلوے، قانون ساز اسمبلیوں اور ڈاک کے محکموں میں اُس کے استعمال کی گنجائش پیدا کی جائے اور اُردو کو ہندوستان کی ہم گیر زبان بنانے کے لیے ایک انقلابی جدوجہد کی جائےـ

(٢)
١٣فروری ١٩٤٠ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بزم ادب لائل پور کے سیکرٹری، جناب محمد اسلم کو خط لکھتے ہوئے اُردو کی اہمیت کو واضح کیا:
“ میں مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے دوسری ہونے والی کُل پنجاب اُردو کانفرنس میں دعوت دی لیکن چند مصروفیات کے باعث معذرت خواہ ہوں ـ میں فقط یہ کہوں گا کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے اور ہمیں ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی حفاظت کریں تا کہ اسے ہمارے مخالفین سے بچایا جائےـ مجھے امید ہے کہ آپ کی کانفرنس اُردو کی بہتری کے لیے ایک اچھا کام کرے گی ـ میں آپ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں ـ

”(٣)
جب اُردو کی مخالفت میں ہندوؤں نے بندے ماترم کو قانون ساز اسمبلی میں رائج کرنا چاہا تو قائد نے فرمایا:
“ وہ ہندی کو لازمی زبان قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو اُردو کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے گی ـ سب سے بری بات یہ ہے کہ ہندی جو سنسکرت ادب و نظریہ اور فلسفے پر مشتمل ہے، مسلمان بچوں اور طالب علموں پر لازماً مسلط کی جائے گی ـ

”(٤)
لوگوں کا اکثر اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اُردو نہیں جانتے تھے، اُسے بات کو رد کرتے ہوئے ڈاکٹر عبادت بریلوی نے کہا کہ:
“ میں نے اُردو بازار، جامع مسجد دہلی کے جلسہ عام میں اُن کی تقریر سُنی تھی اور وہ مسلسل ٤٥ منٹ تک اُردو میں بولتے رہے، جب وہ کیبنٹ مشن پر آئے ہوئے تھے ـ

”(٥)
یہ قائد اعظم کی اُردو سے محبت ہی تھی کہ قیام پاکستان کے بعد اُردو کو قومی زبان کا درجہ ملا ـ ٢٤ مارچ ١٩٤٨ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں گورنر جنرل کی حیثیت سے آپ نے فرمایا:
“ ملک کے مختلف صوبوں کے مابین رابطہ پیدا کرنے کے لیے ایک اور صرف ایک ہی زبان، قومی زبان قرار دے دی جائے گی اور وہ اُردو ہےـ صوبوں کے بیچ خط و کتابت کا تعلق اُردو میں ہو گا، باقی آپ صوبوں کے اندر جس زبان کا چاہیں، انتخاب کریں ـ

”(٦)
مزید فرمایا:“ اردو زبان کی نشوونما میں برصغیر کے ہزارہا ہزار افراد نے حصہ لیا ہے اور وہ پاکستان کی وسیع و عریض خطوں کے علاوہ اور بھی تمام علاقوں میں سمجھی جاتی ہے جو اسلامی ثقافت اور مسلمانوں کی روایت کی آئینہ دار ہے اور دوسرے اسلامی ممالک کے قریب تر ہے، لہذا اُردو سرکاری زبان کہلائے گی ـ
قائد اعظم محمد علی جناح کے اُردو کے متعلق چند مشہور جملے قائد اعظم محمد علی جناح نے سب سے پہلے ١٩١٣ء کو حکومت برطانیہ کے رائل کمیشن کے سوال کے جواب میں فرمایا:
“ اُردو ایک ایسی زبان ہے، جسے آپ ہندوستان کے گوشے گوشے میں بول سکتے اور سمجھا سکتے ہیں ـ”

١٩٣٨ ء کے کلکتہ اجلاس میں فرمایا: “ کانگریس نے وزارت کی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہی، ہندی کو لازمی مضمون قرار دینے کے لیے، ایڑی چوٹی کا زور لگایاـ اُردو کو مٹانے کایہ پہلا مرحلہ ہےـ

١٩٤١ ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: “ اُردو ہماری قومی زبان ہےـ ہمیں اُسے ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ، آلودگیوں سے پاک اور مخالفوں کے جارحانہ اور اور غلط عزائم سے بچائے رکھنے کے لیے، اپنی پوری زندگی، توانائی اور زور لگا دینا چاہیےـ”

١٩٤٢ ء میں فرمایا:
“ اُردو آئندہ پاکستان کی قومی زبان بننے والی ہےـ”
اپریل ١٩٤٦ء کے اجلاس میں فرمایا:
“ میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی ـ”

١٩٤٨ ء میں فرمایا:
“ میں واضح الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اُردو اور صرف اُردو ہوگی ـ جو شخص آپ کو اِس سلسلے میں غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش کرے، وہ پاکستان کا پکا دشمن ہےـ ایک مشترک قومی زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو پوری طرح متحد رہ سکتی ہے اور نہ کوئی کام کر سکتی ہےـ”(٧)

قائد اعظم محمد علی جناح کو اُردو سے بے انتہا محبت تھی حالانکہ وہ انگریزی بڑی بولتی تھے لیکن یہ اُردو زبان کی مٹھاس اور دلکشی ہی تھی کہ انہیں اردو زبان سیکھنی پڑی اور پھر اُس زبان کو قومی زبان بنانے کے لیے مرد مجاہد کی طرح ڈٹے رہےـ

ہر شہد سے میٹھی اور ہر رنگ سے پیاری
کائنات میں مہکتی، وہ اُردو کی زبان ہے

حوالہ جات

(١) محمود الرحمٰن، ڈاکٹر، اردو زبان کی تاریخی اہمیت، مشمولہ: علم کی روشنی، شش ماہی جریدہ، جلد ١٠، شمارہ ١١، شعبۂ تحقیق و جائزہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ٢٠٠٨،ص:٥٦
(٢)عارف افتخار، مقتدرہ قومی زبان ـ ماضی، حال اور مستقبل، مشمولہ: اخبارِ اردو، ماہنامہ، جلد ٢٦،شمارہ ٧،اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، جولائی ٢٠٠٩، ص: ٢
(٣) احمد خان، چودھری، (علیگ)، بحوالہ اُردو سرکاری زبان، لاہور: میٹرو پرنٹرز، ١٩٩٦ء،ص: ١٨٨
(٤) ایضاً، ص: ٥٥
(٥)ایضاً، ص: ٤٨
(٦)بحوالہ قائد اعظم کی تقاریرـ خورشید یوسفی، صفحہ ٢٧٢٥
(٧)ایضاً، ص: ٣

[wpforms id=”3962″]

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے