زمرہ دوم ، موضوع :  قائد اعظم کا تصور قومی زبان

عائشہ خاں

اردو ہماری قومی زبان ہے۔اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے لشکر،اردو مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے اور مختلف زبانوں سے مل کر اردو زبان وجود میں آئی۔ہندوستان کو زبانوں کا گھر کہا جاتا ہے،اردو بھی وہیں سے وجود میں آئی قائد کا تصور اردو زبان جسے پاکستان کے لوگوں کے لئیے مخصوص کیا گیا۔اردو کو ہی کیوں پاکستان کے لوگوں کے لئیے چنا گیا کیا خاص وجہ تھی اس کے لیے قائدکے فرمان کو پڑھتے ہیں۔

پہلا بیان( 1942ء):۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا بیان 1942ء ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے تحریر کیا گیا ہے۔
”پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“
دوسرا بیان (1946ء):۔
قائد اعظمؒ نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس ،دہلی میں فرمایا :۔
”میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔“

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جہاں جہاں مذہبی سیاسی جماعتوں کے مسائل تھے وہاں زبان کا بھی مسئلہ تھا کوئی بھی قوم اپنی قومی زبان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔اس لئیے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور سکولوں میں اردو زبان کو فروغ دیا گیا۔اردو کے قومی زبان ہونے کے باوجود لوگ بہت کم اردو کا استعمال کرتے ہیں ٪7 لوگ ہی اردو بولتے ہیں باقی دفتری کاروبار یا دوسرے معاملات کے لیے ہی اردو کا استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اردو کو زوال پزیر کر دیا ہے۔آج کے مسلمان اردو کو اتنا گرا دیا ہے کہ بچے لکھنا تو دور کی بات بول نہیں پاتے ٹھیک سے۔کیایہ ہے قائد کا تصور کیایہ ہے ہماری قوم کی سرکاری زبان کیایہ ہے ہمارا آنے والے کل کی روشن تصویر۔اردو کی بجائے انگریزی کو ترجیح دے کر اردو کو کہیں دور قیمتی اثاثہ سمجھ کر محفوظ مقام پر رکھ دیاہے۔تمام مضامین پہلے جہاں اردو میں ہوتے تھے اب انگریزی میں نظر آتے ہیں۔کیا خوب کہا تھا کسی نے کہ،

"اگر تم کسی قوم کو غلام بنانا چاہتے ہیں تو ان سے ان کی قومی زبان چھین لو”

آج ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں وہ اس طرح کہ انگریز تو چلے گئے مگر مسلمانوں کو انگریزی کے زریعے قید کر گئے۔آج کے دور کے مسلمان کو اردو نہیں انگریزی سکھائی جاتی ہے۔کیوں؟ہماری نوجوان نسل کو اردو کی طرف راغب کر کے ہی غلام بننے سے بچا سکتے ہیں وہ غلام جو انگریزی کے پیچھے ہیں۔ ان کو کسی بھی ملک و قوم کی ترقی میں قومی زبان بہت اہمیت رکھتی ہے۔

قائد اعظم نے ایک بار فرمایا:
”میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے۔ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔“

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
24 مارچ 1948ء میں اپ نے کہا اردو کو سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:۔
”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“

ڈاکٹر سرمحمد علامہ اقبالؔ اردو کے عظیم فلسفی شاعر ہیں۔ اقبالؔ شاعری نے اردو زبان و ادب میں ایک الگ مقام پیدا کیا ہے اس بات میں دورائے نہیں ہے کہ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں علامہ اقبالؔ کا بہت بڑا حصّہ رہا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اردو کا شاعری ادب علامہ اقبالؔ کے بنا ادھورا ہے علامہ اقبالؔ پر جتنی تحقیقات ہوئی ہیں، جتنے سمینار اور کتابیں شائع ہوئی ہیں آج تک اردو کے کسی بھی شاعر یا ادیب پر ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

آبِ تیغِ یار تھوڑا سا نہ لے کر رکھ دیا
باغ جنت میں خدا نے آبِ کوثر رکھ دیا
آنکھ میں ہے جوشِ اشک اور سینے میں سوزاں ہے دل
یاں سمندر رکھ دیا اورواں سمندر رکھ دیا

سولہ سال کی عمر میں کہی گئی اقبالؔ کی اس غزل میں زبان نہایت صاف ہے۔ اس غزل کے مطالعہ سے اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ نے اردو شاعری کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اردو ہندوستان بھر میں بحیثیت زبان ہر طرف پھل پھول رہی تھی جنوبی ہند میں مدراس، بنگلور جیسے شہروں میں اردو اپنا سکہ جما رہی تھی۔

اردو زبان کی نشو نما کے اس مرحلے میں علامہ اقبالؔ نے شعر گوئی کا آغاز کیا۔ تاہم غالبؔ کا اثر ان پر بہت نمایاں ہے۔ اقبالؔ کے اردو زبان کے اندازِ بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ابتداہی سے ان کو زبان لکھنؤ کا چسکا تھا۔ اردو زبان کے عظیم الشان شعری سر مائے کے مقابل اپنی بے بضاعتی کا اقبالؔ کو صحیح اندازہ تھا۔ اسی لیے اردو زبان سیکھنے کا اپنا سفر جاری رکھا۔ اقبالؔ اپنا کلام داغؔ جیسے ملک الشعرا کے پاس لاہور سے حیدر آباد بھیجتے رہے اس طرح سے وہ داغؔ کی شاگردی میں داخل ہو گئے۔

لڑکپن ہی سے اقبال کاکلام مختلف رسالوں میں شائع ہونے لگاتھا۔ وہ انیسؔ کی شعری زبان سے بے حد متاثر تھے اقبالؔ کا یہ خیال تھا کہ ’’ میرانیسؔ نے اردو زبان کو حدِ کمال تک پہنچایا‘‘ اردو زبان سے غیر معمولی دلچسپی رکھنے والے اقبالؔ جب ایم۔ اے کے طالب علم تھے اس وقت تک اردو زبان پر خاصہ عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس دوران غزلوں کے علاوہ اردو میں کئی نظمیں، قطعات، مسدس اور مختصر مثنویاں لکھ چکے تھے۔

ان سب میں ان کی زبان دانی اور ہنر مندی کی کوشش نمایاں تھی اس وقت کے اقبالؔ کے غزلوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبالؔ اردو زبان سیکھنے اور شاعری میں آگے بڑھنے کے لیے کس تند ہی سے لگے تھے اور اس میں وہ آگے بڑھ رہے تھے اور ان کی زبان پر کئی اساتذہ کا اثر ہے اقبال کے اوّلین غزل کا ایک مقطع ملاحظہ فرمائیے

نسیمؔ و تشنہؔ ہی اقبالؔ کچھ نازاں نہیں اس پر
مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغؔ سخن داں کا

اقبالؔ نے اردو کو ہندوستان کی سب سے بڑی رابطہ کی زبان کہا ہے
علامہ اقبالؔ کی اپنی زبان اردو نہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے اردو کی گہرائی میں جاکر اس زبان کی چاشنی حاصل کرلی۔ اقبالؔ نے تمام ہندوستانیوں پر اردو سیکھنے کے لیے زور ڈالا ۱۹۲۹ ؁ء میں انھوں نے اردو کی تدریس کےلئے بھ لیے ’ اردو کورس‘ کے نام سے پانچویں تا آٹھویں جماعت تک کے لیے درسی کتابیں بھی مرتب کیں جسے پنجاب ٹکسٹ بک کمیٹی کی ’ اردو ادب کمیٹی‘ کے لیے شائع کیا تھا۔

ہمارے تمام راہنماؤں نے اردو پر زور دیا اب ضرورت اس بات کی ہے ہم کیسے اس کا تحفظ کرتے ہیں۔ہمیں اپنے بچوں کو اردو کی طرف کر کے اردو کو وہ مقام دینا ہے جو اسے پہلے دیا گیا تھا۔ہم اردو کو اپنے ملک میں اسے اتنا مضبوط بنانا ہے کہ انگریزی مضمون کو زیادہ اہمیت نہ مل سکے اور قائد کا تصور برقرار رہے۔

 

/10
[wpforms id=”3962″ title=”false” description=”false”]

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے