ماہ نور جاوید ، (تاندلیانوالہ) ایم فل کمپیوٹر سائنس ، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

اردو پاکستان کی قومی و ثقافتی زبان ہے ، یہ بہت جامع زبان بھی ہے مگر اسکو سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہو سکی۔ اردو زبان کا شمار بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہوتا ہے۔ یونیسکو کے اعداد دوشمار کے مطابق عام طور پر بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد یہ تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔اردو مشرق بعید کی بندرگاہوں سے مشرق وسطی اور یورپ کے بازاروں، جنوبی افریقہ اور امریکہ کے متعدد شہروں میں یکساں مقبول ہے۔

یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا ہے یہ معجزہ

وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زبان پر آ گۓ

امجد اسلام امجد

اردو زبان کو تو عام طور پر سولہویں صدی سے ہی رابطے کی زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اس رابطے کی توسیع عہد مغلیہ میں فارسی زبان کے واسطے سے ہوئی۔ اردو زبان کی ساخت میں پورے برصغیر کی قدیم اور جدید بولیوں کا حصہ ہے۔ اردو ایک زندہ زبان ہے اور اپنی ساخت میں بین الاقوامی مزاج رکھتی ہے۔ یہ زبان غیر معمولی لسانی مفاہمت کا نام ہے۔

اس کی بنیاد ہی مختلف زبانوں کے اشتراک پر رکھی گئی ہے۔ اردو گویا بین الاقوامی زبانوں کی ایک انجمن ہے جس میں شرکت کے دروازے عام و خاص ہر زبان کے الفاظ پر یکساں کھلے ہوئے ہیں۔ اردو میں مختلف زبانوں مثلاً ترکی، عربی، فارسی ، پرتگالی، اطالوی، چینی ، انگریزی ، یونانی، سنسکرت اور مقامی بولیوں اور بھاشایا ہندی سے لیے گئے ہیں۔

غیر زبانوں سے جو الفاظ براہ راست اردو کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہو گئے ہیں ان میں۷۵۸۴ الفاظ عربی کے، ۶۰۴۱ الفاظ فارسی کے، ۱۰۵ الفاظ ترکی کے، گیارہ الفاظ عبرانی کے اور سات الفاظ سریانی زبان کے ہیں۔مزیدیہ کہ یورپی زبانوں میں سے انگریزی کے پانچ سو، اور ایک سو ترپن ایسے ہیں جو مختلف یورپی زبانوں ، یونانی، لاطینی ، فرانسیسی، پرتگالی اور ہسپانوی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اس طرح اردو ایک بین الاقوامی مزاج کی حامل زبان ہے۔ اس میں نہ صرف عربی، فارسی یا مقامی بولیوں کے الفاظ ہیں بلکہ دنیا کی ہر قوم اور ہر زبان کے الفاظ کم و بیش شامل ہیں۔


یہ بھی پڑھیں


اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

یہی وجہ ہے کہ اردو کے مزاج میں لچک اور رنگارنگی ہے لیکن وہ کسی زبان کی مقلد نہیں ہے، بلکہ صورت اور سیرت دونوں کے اعتبار سے اپنی ایک الگ اور مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اردو مخلوط زبان ہونے کے باوجود اپنی رعنائی، صناعی اور افادیت کے لحاظ سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے اپنی ساخت، مزاج اور سیرت کو دوسری زبانوں کے تابع نہیں کیا۔ ان ظاہری ومعنوی خصوصیات اور محاسن کے اعتبار سے یہ دنیا کی اہم زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

دنیا کی قدیم زبانوں کے مقابلے میں اگرچہ یہ کم عمر ہے لیکن ادبی اور لسانی حیثیت سے اس کا پلہ سینکڑوں زبانوں پر بھاری ہے۔یورپ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں اردو زبان و ادب کے تراجم پر کئی زبانوں میں کام ہو رہا ہے ۔ اسی طرح اردو میں بھی متعدد زبانوں کی تخلیقات کے تراجم ہوئے اور ہو رہے ہیں ، لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر زبانوں کے تکنیکی، سائنسی اور علمی و فنی کتب و مضامین کو زیادہ سے زیادہ اردو کے قالب میں ڈھالا جائے تاکہ جدید دور کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔

قائد اعظمؒ کے ارشادات قومی زبان کے تصور کی مد میں:

قائداعظمؒ نے مختلف مواقع پر اردو زبان کی افادیت، اہمیت اور اس کی ترویج و اشاعت کے حوالے سے ،جو ارشادات فرمائے ان میں سے چند فرمودات بالترتیب ذیل میں درج ہیں

پہلا بیان( 1942ء)

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا پہلا بیان 1942ء ”پاکستان مسلم انڈیا“ دیباچے میں کچھ اس طرح سے تحریر ہے۔

پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی

دوسرا بیان (1946ء)

قائد اعظمؒ  نے 10 اپریل 1946ء کو اپنے آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس ،دہلی    میں فرمایا

میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی

تیسرا بیان (1948ء)

تیسرا بیان جسے سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جلسہ عام ڈھاکہ 21 مارچ 1948ء میں قائد اعظمؒ کا خطاب ہے جس میں انہوں نے فرمایا

میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہےاس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ اس صوبے کے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو ، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔

چوتھا بیان (1948ء)

چوتھا بیان 24 مارچ 1948ء کا ہے اسے بھی سرکاری اعتبار سے فرمان کا درجہ حاصل ہے۔ جس میں قائد اعظم ؒ نے فرمایا:

اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ان کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے

اردو زبان ہندوستان میں مسلمانوں کے شاندار اور تابناک ماضی کی آئینہ دار بھی تھی اور پاکستان میں مسلمانوں کے روشن اور خوش کن مستقبل کا اظہار بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے فرامین کی روشنی میں اس زبان کو اس کے جائز مقام کے اعتبار سے اہمیت دی جائے۔

[wpforms id=”3962″]