سال 2019 میں بھارت میں پانی پت کے نام سے ایک فلم تیار کی گئی ،ویسے تو بھارتی فلم انڈسٹری اپنے متنوع موضوعات کی وجہ سے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے ،یہ بھی انہی موضوعات کی طرح کی فلم تھی ،لیکن اس فلم پر دنیا بھر میں اور خاص طور پر افغانستان کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا کیوں کہ اس فلم میں جس شخصیت کو موضوع بنایا گیا تھا وہ افغان تاریخ کے ایک عظیم رہنما احمد شاہ ابدالی تھے ،جنہیں افغان قوم ابدالی بابا کے نام سے یاد رکھتی ہے ،ان کی نظر میں احمد شاہ ابدالی ایک عظیم فاتح اور جنگجو تھے ،جبکہ فلم میں انہیں ایک عیاش اور لٹیرے حکمران کے طور پر پیش کیا گیا تھا ،قطع نظر اس بحث کہ کے بھارتی فلم میں انہیں کیا بنا کر پیش کیا گیا اور تاریخ میں ان کا کردار کیا تھا ؟
یہ بات واضح ہے کہ جب کوئی ملک یا ادارہ تاریخ کے بارے میں بھاری سرمایہ کاری سے کوئی فلم یا کتاب تیار کرتا ہے تو لازمی طور پر وہ اسے اپنے نکتہ نظر سے ہی دنیا کے سامنے پیش کریگا ۔
اگرچہ ہمارا آج کا موضوع نہ تو بھارتی فلم ہے اور نہ اس کا مواد ،البتہ احمد شاہ ابدالی کا ہزارہ کی تاریخ سے ایک گہرا تعلق ضرور موجود ہے ،جس کے آثار آج بھی دریائے سندھ کے کناروں پر جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں ۔اور یہ تاریخ کے انمٹ اور ناقابل تردید شواہد ہیں ،جو اب ماضی کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں
سن 1757 میں ماتھورا کے میدان میں ہندو جاٹوں اور احمد شاہ ابدالی کے مابین ایک خونریز جنگ لڑی گئی ،جس کے قصے آج بھی تناول کی لوک کہانیوں کا حصہ ہیں ،کیوں کہ اس جنگ میں تناول کے ایک نوجوان سردار صوبہ خان نے اپنے قبیلے کے جنگجوئوں کے ہمراہ حصہ لیا ،اور میدان جنگ میں تدبر و بہادری کے وہ نشانات چھوڑے کہ احمد شاہ ابدالی بھی انکی جرات و شجاعت کے قائل ہوگئے ۔اورانہیں صوبہ خان کا لقب دیتے ہوئے علاقہ تناول بطور جاگیر اور نقد انعام سے سرفراز کیا ۔
اگرچہ خطہ تناول کے باسی اپنی آزادطبیعت کے باعث مغل سلطنت اور ان کے مقامی حلیفوں کی بالادستی کے خلاف برسرپیکار رہے لیکن دہلی سلطنت کی کمزور ہوتی گرفت نے ان کی علاقائی طاقت کو بھی مضمحل کردیا جس کے نتیجے میں تناول کے سنگلاخوں میں آباد ان قبائل کو پہلے سے بڑھ کر کھل کھیلنے کا موقع ملا اور انہوں نے خطے سے باہر نکل کروسیع میدان میں اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ،یہی وجہ ہے کہ جب احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر طالع آزمائی کا فیصلہ کیا تو تنولی قبیلے کا نوجوان صوبہ خان اپنے قبیلے کے کڑیل جنگجوئوں کے ساتھ ان کے ہمرکاب تھا .
آج بھی تناول کے بڑے بزرگ ان قصوں کو بیان کرتے ہیں کہ کیسے ان کے جوان مقامی ساختہ توپیں زنبورک اور تلواریں اٹھائے میدان کارزار میں اترے اور اپنی بہادری کا لوہا منوا لیا ۔ان زبانی قصے کہانیوں سے بڑھ کر صوبہ خان تنولی کی نسل سے یونین کونسل چمہڈ میں موجود سابق مدرس نیاز خان تنولی کے پاس احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ سے لکھا ہوا خط اور کئی تاریخی دستاویزات موجود ہیں جو ان داستانوں کی حقیقت کو ثابت کرتی ہیں ۔
زبردست خان تنولی المعروف صوبہ خان تنولی ،بہادر خان تنولی کے ہاں 1700 کی دوسری یا تیسری دہائی میں اس وقت پیدا ہوئے جب ان کے بزرگ مغل سلطنت کے عتاب کا شکار ہو کر تناول کے پہاڑی دروں میں پنا ہ گزیں تھے۔ان حصار بند بستیوں کے آثار آج بھی سندھ کے کنارے ناقابل رسائی پہاڑی چوٹیوں پر جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں جو زمانے اور لوگوں کی یادداشت سے محو ہوچکے ہیں ۔
اس جنگ میں فتح کے بعد احمد شاہ ابدالی نے نمایاں کارنامے سرانجام دینے پر انعام کے طور پر انہیں 12 ہزار روپے نقد اور سالانہ دو ہزار روپے کی جاگیر کے علاوہ تناول سے گزرنے والے تجارتی قافلوں سے محصولات کی وصولی کا اختیار دیدیا ۔اس بات کی گواہی 1783 میں علاقے سے گزرنے والے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک اہلکار جارج فارسٹر نے بھی اپنی ایک تحریر میں دی ہے ،جس میں انہوں نے لکھا کہ جب وہ تناول کے علاقے سے گزرے تو انہوں نے صوبہ خان کے بیٹوں کے حکم پر کابل و کشمیر کے درمیان چلنے والے تجارتی قافلوں سے محصول وصول کرتے ہوئے دیکھا
احمد شاہ ابدالی کی مہم میں شمولیت اور انعامات و جاگیر کی وجہ سے صوبہ خان تنولی ہزارہ کے خطے کے طاقتور ترین سردار بن گئے ۔لیکن اس جنگ میں ہونے والے خون خرابے نے ان کی باقی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے ۔کیوں کہ مہم میں شامل ایک افغان سردار کی یادداشتوں کے مطابق اس جنگ میں ہر جانب تباہی و بربادی تھی ،چاروں اطراف لاشوں کے ڈھیر تھے کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی نہ تھا ،تعفن اس قدر کہ سانس لینا بھی دشوار تھا ،اور کسی لاش پر کوئی سر نہ تھا ،
یہی وجہ ہے کہ مہم سے واپس آکر صوبہ خان تنولی نے اپنے دارلحکومت مانگل کی زمین ایک صوفی بزرگ کو عطیہ کردی اور خود دریائے سندھ کے کنارے بیڑ نامی شہرآباد کرلیا جس کے بعد انہوں نے بھیرکنڈ نامی شہر آباد کیا جو اس وقت ضلع ایبٹ آباد اور ضلع مانسہرہ میں واقع ہیں ۔یہ دونوں شہر گندھارا تہذیب کے ایک دیوتا بیر دیوا کے نام پر آباد ہوئے ۔

احمد شاہ ابدالی سے ملنے والی غنیمت اور جاگیر نے صوبہ خان تنولی کی طاقت اور رسوخ کوعطا کیا ،اور اس سے انہوں نے نئے شہر آباد کئے اور اپنے حلقہ اثر کو بڑھایا ،جو ان کی آنے والی نسلوں کو غاصب طاقتوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوئی ۔
ہزارہ کے پہلے مورخ لالا مہتاب سنگھ 1846 میں لکھا ہے کہ ایک دن جب صوبہ خان کے بیٹے کی پیدائش کی خوشی کی تقریب میں شہر کے مسلمان ،سکھ اور ہندو شہری موجود تھے انہوں نے کہا ،مجھے اپنی نسل بڑھنے سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب کوئی نیا شخص میرے شہر میں آکر آباد ہوتا ہے
وہ مزید لکھتے ہیں کہ صوبہ خان کے بیٹے گل شیر خان نے ہندوئوں کی عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے 2 ہزار روپے نقدبھی عطا کئے ۔
آنے والے وقتوں میں صوبہ خان کی فراہم کردہ مضبوط بنیاد پر ان کی نسل نے تناول کے خطے پر اپنے اقتدار اور طاقت میں اضافہ کیا ،اور بعدازاں میں آنے والے سکھوں کے حملوں اور سید احمد شہید جیسے طالع آزمائوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور حریت و آزادی کا علم بلند کیے رکھا ۔
تاوقتیکہ کہ 1858 میں انگریز سرکار نے بھی ریاست امب کی آزادانہ و خودمختار حیثیت کو تسلیم کرلیا ۔جو 1970 تک اپنا وجود برقرار رکھے رہی ۔
صوبہ خان تنولی کی آخری آرامگاہ ضلع ہریپور سے 36 کلومیٹر دور پوہار نامی ایک بستی میں واقع ہے ،جبکہ مزار سے کچھ فاصلے پر اس بستی کے آثار اور کھنڈرات بھی موجود ہیں جہاں صوبہ خان نے اپنے بچپن کے ایام بسر کئے تھے
جہانداد خان تنولی نوجوان تاریخ دان اور محقق ہیں ، بالخصوص ہزارہ کی تاریخ و تہذیب پرسند رکھتے ہیں ۔
ترجمہ و تلخیص :صفدر حسین